Ruh-ul-Quran - Al-Ghaafir : 51
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْهَادُۙ
اِنَّا : بیشک ہم لَنَنْصُرُ : ضرور مدد کرتے ہیں رُسُلَنَا : اپنے رسول (جمع) وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے فِي : میں الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَيَوْمَ : اور جس دن يَقُوْمُ : کھڑے ہوں گے الْاَشْهَادُ : گواہی دینے والے
یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں، اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے
اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ ۔ یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ الظّٰلِمِیْنَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَھُمُ اللَّغْنَۃُ وَلَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِ ۔ (المؤمن : 51، 52) (یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں، اور اس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے۔ جب ظالموں کو ان کی معذرت کچھ نفع نہیں دے گی اور ان کے اوپر لعنت ہوگی اور ان کے لیے برا ٹھکانہ ہوگا۔ ) حق و باطل کی کشمکش اور اللہ تعالیٰ کی سنت گزشتہ آیات میں مردمومن کی جرأتِ اظہار، حق گوئی، اللہ تعالیٰ پر توکل اور حکومتِ وقت کے جبر و استبداد سے بےنیازی کا ذکر فرمانے کے بعد اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی انتہائی بےبسی کے باوجود اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرعونِ وقت کی قوتوں سے جا ٹکرائے اور مردمومن اپنی حق گوئی کی وجہ سے فرعون اور آل فرعون کے عتاب کا ہدف بنا۔ لیکن آخر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فیصلہ آیا وہ یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، مردِمومن اور باقی تمام اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب و کامران ٹھہرے۔ اور فرعون اور آل فرعون کو اللہ تعالیٰ کے عذاب نے آپکڑا اور وہ ہمیشہ کے لیے عبرت بن کر رہ گئے۔ اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے پیش نظر آیت کریمہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر شخص جو حق و باطل کی کشمکش کو سمجھنا چاہتا ہے اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم ایسی کشمکش میں ہمیشہ اپنے رسولوں اور اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں کی دنیا میں بھی مدد کرتے ہیں اور آخرت میں بھی مدد فرمائیں گے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قریش کی دولت و رفاہیت نے جس طرح انھیں طاقت کے پندار میں مبتلا کر رکھا ہے اور وہ نبی کریم ﷺ اور اصحابِ ایمان کی فقر و غربت کو دیکھ کر مذاق اڑاتے ہیں، لیکن وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق آنحضرت ﷺ اور ان پر ایمان لانے والوں کو فتح و نصرت سے نوازے گا اور ان کے مخالفین نہایت لجاجت اور عاجزی سے رسول اللہ ﷺ کے سامنے جان کی امان مانگ رہے ہوں گے۔ اور جہاں تک آخرت کا تعلق ہے وہاں تو اللہ تعالیٰ کے تمام نبی اور رسول اور ان پر ایمان لانے والے یقینا جنت کے انعامات سے نوازے جائیں گے۔ ایک اشکال کا جواب اس پر بعض لوگوں کو اشکال ہوا ہے کہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء اور رسل کو ایسی ہی کامیابیوں سے نوازا۔ مگر بعض انبیاء (علیہم السلام) جیسے حضرت یحییٰ ، زکریا اور شعیب (علیہم السلام) کو دشمنوں نے شہید کردیا۔ اور بعض انبیاء اور رسل کو وطن سے ہجرت کرنا پڑی اور پھر کبھی وطن لوٹ کر نہ جاسکے۔ جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ۔ ابن کثیر نے ابن جریر کے حوالہ سے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ آیت میں نصرت سے مراد انتصار اور دشمنوں سے انتقام لینا ہے۔ خواہ ان کی موجودگی میں ان کے ہاتھوں سے یا ان کی وفات کے بعد یہ وہ حقیقت ہے جو تمام انبیاء اور مومنین پر بلا کسی استثنیٰ کے صادق آتی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے انبیاء کو قتل کیا پھر وہ کیسے کیسے عذابوں میں گرفتار کرکے رسوا کیے گئے، تاریخ ان واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ حضرت یحییٰ ، زکریا اور حضرت شعیب (علیہم السلام) کے قاتلوں پر ان کے دشمنوں کو مسلط کردیا گیا جنھوں نے ان کو ذلیل و رسوا کرکے قتل کیا۔ نمرود کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی عبرت آمیز سزا میں مبتلا کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دشمنوں پر اللہ تعالیٰ نے روم کو مسلط کردیا جنھوں نے ان کو ذلیل و خوار کیا۔ بعض اہل علم نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ امداد، غلبہ اور استیلا کئی طرح کا ہوتا ہے۔ مثلاً دینی، اخلاقی اور سیاسی۔ بعض مواقع پر غلبے سے مراد یہ تینوں ہی غلبے ہوتے ہیں کہ وہاں رسول کا لایا ہوا دین غالب آجاتا ہے۔ رسول اور اس پر ایمان لانے والوں کو اپنے مخالفین پر اخلاقی تفوق حاصل ہوتا ہے اور دشمن بھی ان کی سیاسی برتری کو تسلیم کرتا ہے۔ اور بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں، رسولوں اور اصحابِ ایمان کو سیاسی غلبے سے نوازتا ہے۔ ملک کے اقتدار کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آجاتی ہے اور آہستہ آہستہ ان کے نظریات، ان کا طرززندگی، اس ملک میں رہنے والوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پر غالب آجاتا ہے۔ تو ان تینوں میں سے کوئی نہ کوئی تفوق اور غلبہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور ان پر ایمان لانے والوں کو ضرور عطا کرتا ہے۔ بظاہر جن انبیاء کو شہید کردیا گیا یا جن رسولوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا، تاریخ آج بھی ان کو سلام کرتی ہے۔ بڑے سے بڑے فلسفی کا فلسفہ اور اس کی فکری برتری آہستہ آہستہ تجربوں سے گزرنے کے بعد ناکام ہوجاتی ہے اور دنیا اسے ماننے سے انکار کردیتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نبیوں نے جن حقائق کو ہزارہا برس پہلے لوگوں کے سامنے پیش کیا ان کی عظمت کا کبھی انکار نہ کیا جاسکا۔ وہ ہر دور میں ایک ایسی حقیقت بن کر رہے جس کی اہمیت و افادیت سے کبھی انکار ممکن نہ ہوسکا۔ ایک تیسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ نبی اور رسول میں فرق ہے رسولوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ جس قوم کی طرف بھیجے جاتے ہیں ان کے لیے وہ اللہ تعالیٰ کی عدالت ہوتے ہیں۔ اگر قوم ان کی تکذیب کردیتی ہے تو وہ لازماً فنا کردی جاتی ہے۔ عام اس سے کہ وہ کسی خدائی عذاب سے تباہ ہو یا اہل حق کی تلوار سے شکست کھائے اور عام اس سے کہ یہ واقعہ رسول کے سامنے ہی پیش آئے یا رسول کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد۔ حضرت نوح (علیہ السلام) سے لے کر حضرت مسیح (علیہ السلام) تک ہر رسول کی زندگی اس سنت الٰہی کی شہادت دیتی ہے۔ یہ تو دنیا کی زندگی میں ہے۔ اور جہاں تک آخرت کا تعلق ہے اس دن اللہ تعالیٰ ہر نبی اور ہر رسول سے گواہی دلوائے گا کہ اس نے لوگوں کو کیا تعلیم دی۔ اسی طرح امتوں سے سوال ہوگا کہ انھوں نے اپنے رسولوں کو کیا جواب دیا ان کی گواہی کے بعد۔ جن لوگوں نے ان کی دعوت کو رد کرکے اپنے اوپر ظلم کیا ہوگا وہ اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ ان کا کوئی عذر بھی کارگر نہیں ہوسکے گا۔ یہاں تک کہ جو لوگ اپنی گمراہی کا ذمہ دار اپنے لیڈروں کو بنانا چاہیں گے ان کا عذر بھی مسموع نہیں ہوگا۔ دونوں اپنے اپنے جرم میں پکڑے جائیں گے۔ ان پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی پھٹکار ہوگی اور ان کا نہایت برا ٹھکانہ ہوگا۔
Top