Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Ghaafir : 58
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ۙ۬ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الْمُسِیْٓءُ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَلَا الْمُسِيْٓءُ ۭ : اور نہ بدکار قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَتَذَكَّرُوْنَ : تم غور و فکر کرتے ہو
اور اندھا اور آنکھ والا برابر نہیں اور نہ ایمان لانے والے نیکوکار اور نہ بدکار (برابر ہیں) (حقیقت یہ ہے کہ) تم بہت کم غور کرتے ہو
58۔ 60۔ اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تھا کہ لوگوں کے دوسری بار پیدا کرنے سے آسمان اور زمین کا پیدا کرنا بغیر کسی نمونہ کے عقل کے نزدیک بہت بڑا ہے کیونکہ بڑی چیز کے بنانے میں چھوٹی چیز کے بنانے سے زیادہ قدرت درکار ہے مگر اللہ کے نزدیک چھوٹی بڑی چیز کے بنانے میں کچھ فرق نہیں حاصل یہ کہ جب تم اس کی ایسی ایسی بڑی چیزیں بنائی ہوئی رات دن دیکھ رہے ہو تو پھر کیوں دوسری بار پیدا ہونے کو دشوار جانتے ہو جو صاحب قدرت ایسی بڑی چیزوں کے پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے وہ انسان کے دوسری بار پیدا کرنے پر بطریق اولیٰ قادر ہے پھر کیوں اندھوں کی طرح قیامت سے انکار کرتے ہو اور جو لوگ اس بات کو جانتے ہیں وہ مانند آنکھوں والے شخص کے ہیں اسی واسطے فرمایا جس طرح اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں اسی طرح ایماندار نیک کردار اور کافر بدکار برابر نہیں کیونکہ ایماندار شخص آنکھوں والے شخص کی طرح اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر اللہ کو پہچانتا ہے اور کافر اندھے کی طرح قدرت کی نشانیوں کو نہیں دیکھتا پھر فرمایا یہ اہل مکہ کا اندھا پن اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی دی ہوئی سمجھ سے کام نہیں لیتے اگر ذرا بھی سمجھ سے کام لیں تو بت پرستی حشر کے انکار اور ایسی اور نافرمانی کی باتوں کی برائی ان کی اچھی طرح سب کھل جائے پھر فرمایا کہ ان میں کے اکثر لوگ حشر کے منکر ہیں تو ہوں ان کے انکار سے انتظام الٰہی کچھ پلٹ نہیں سکتا بلکہ انتظام الٰہی کے موافق سزا و جزا کے لئے دوبارہ زندہ کرنے کی گھڑی ضرور آنے والی ہے کسی کے انکار سے سے اس کا آنا رک نہیں سکتا اس واسطے اللہ کا حکم سب بندوں کو یہی ہے کہ وہ خالص دل سے اللہ کی عبادت کریں جو کوئی اس حکم کی تعمیل نہ کرے گا۔ تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے حضرت عبد اللہ بن عباس 1 ؎ کے صحیح قول کے موافق یہاں دعا کے معنی خالص دل کی عبادت کے ہیں آیت میں ایک جگہ ادعونی فرما کر پھر عبادتی جو فرمایا اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے صحیح سند سے ترمذی 2 ؎ نسائی ابو دائود ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں نعمان ؓ بن بشیر سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے دعا کے معنی عبادت کے فرما کر پھر یہی آیت پڑھی اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عبد ؓ اللہ بن عباس کی تفسیر اللہ کے رسول کی تفسیر کے موافق ہے حاصل کلام یہ ہے کہ دعا کا لفظ اگرچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کئی معنی میں فرمایا ہے لیکن جس طرح سورة یونس کی آیت ولاتدع من دون اللہ مالاینفعک ولایضرک میں دعا کے معنی عبادت کے ہیں وہی معنی یہاں ہیں ‘ دعا کے اصلی معنی طلب اور التجا کے ہیں اب ہر بدنی اور مالی عبادت میں آدمی کے دل میں یہ التجا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عبادت کو قبول اور اس کا ثواب عنایت فرمائے جس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی عبادت دعا سے خالی نہیں اسی واسطے اوپر کی نعمان ؓ بن بشیر کی حدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا الدعاء ھوا العبادۃ جس کا مطلب وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ کوئی عبادت دعا سے خالی نہیں ہے۔ (1 ؎ تفسیر الدر المنثور ص 355 ج 5۔ ) (2 ؎ جامع ترمذی تفسیر سورة المومن ص 179۔ )
Top