Tadabbur-e-Quran - Al-Ghaafir : 58
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ۙ۬ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الْمُسِیْٓءُ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَلَا الْمُسِيْٓءُ ۭ : اور نہ بدکار قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَتَذَكَّرُوْنَ : تم غور و فکر کرتے ہو
اندھے اور بینا اور جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے اور وہ جو برائی کرے والے ہیں دونوں یکساں نہیں ہو سکتے۔ تم لوگ بہت کم سوچتے ہو !
آخرت کی اخلاقی ضرورت واضح فرمائی کہ اگر آخرت نہیں ہے، جیسا کہ یہ لوگ گمان کئے بیٹھے ہیں، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ دنیا ایک اندھیر نگری ہے۔ اس کے خالق کے نزدیک عقل و دل کے اندھے اور عقل و بصیرت رکھنے والے دونوں یکساں ہیں اور نیکوکار اور بدکار میں اس کے نزدیک کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ یہ بات بالبداہت غلط ہے۔ اس سے خدا کی صفات عدل، حکمت، رحم اور قدرت کی نفی ہوجاتی ہے جو دوسرے الفاظ میں خود خدا کی نفی کے ہم معنی ہے۔ اس وجہ سے قیامت کا آنا لازمی ہے۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ اکثر لوگ اس بدیہی حقیقت پر بھی ایمان نہیں لا رہے ہیں۔ ’ اعمر ‘ یہاں عقل و دل کے اندھوں کے لئے استعمال ہوا ہے اور ’ بصیر ‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو بصارت کے ساتھ بصیرت رکھنے والے اور اللہ کی نشانیوں پر غور کرنے والے ہیں۔ قلیلا ما تتذکرون سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ یہ حقائق ایسے مخفی نہیں ہیں کہ کسی کی سمجھ میں آ ہی نہ سکیں۔ لیکن جو لوگ سرے سے اپنے سمع و بصر سے کام ہی نہیں لینا چاہتے ان کا کیا علاج۔
Top