Tafseer-e-Madani - Al-Ghaafir : 58
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ۙ۬ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الْمُسِیْٓءُ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَلَا الْمُسِيْٓءُ ۭ : اور نہ بدکار قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَتَذَكَّرُوْنَ : تم غور و فکر کرتے ہو
اور برابر نہیں ہوسکتے اندھا اور دیکھنے والا اور نہ ہی وہ لوگ جو ایمان لا کر نیک کام کرتے رہے ہوں اور بدکار آپس میں برابر ہوسکتے ہیں تم لوگ کم ہی سبق لیتے (اور عبرت پکڑتے) ہو
110 ضرورت آخرت اختلاف اخلاق کے اعتبار سے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " برابر نہیں ہوسکتے اندھا اور دیکھنے والا اور نہ ہی نیک اور بد "۔ تو پھر ان کا انجام کیسے برابر ہوسکتا ہے ؟ اور جب اس دنیا میں اس فرق و انجام کا نتیجہ ظاہر نہیں ہوتا تو لازماً کوئی وقت ایسا ہوگا اور ضرور ہونا چاہیئے جس میں پورا انصاف ہو اور ہر کسی کو اپنے کئے کرائے کا پورا بدلہ ملے اور نتائج کا فرق بھرپور طریقے سے ظاہر ہو۔ سو وہی قیامت کا دن ہے جس کو یَوْمُ الدِّیْنِ یعنی " بدلے اور جزا و سزا کا دن " کہا جاتا ہے۔ لہٰذا قیامت کے اس دن کا آنا عقل و نقل دونوں کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ تاکہ عدل و انصاف اور سزا و جزا کے تقاضے بھرپور طریقے سے پورے ہو سکیں۔ اور جو لوگ قیام قیامت کی اس حقیقت کبریٰ کا انکار کرتے ہیں وہ حقیقت میں عقل و نقل، عدل و انصاف، حق و صداقت کے تقاضوں کا انکار کرتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو عقیدئہ آخرت کا ایمان و یقین سب خوبیوں کی اصل اور اساس ہے۔ اور اس کا انکار سب خرابیوں کی جڑ بنیاد ۔ والعیاذ باللّٰہِ العظیم ۔ فَزِدْنَا اللّٰہُمَّ اِیْمَانًا وَّیَقِیْنًا بِکَ وَبِکِتَابِکَ الَّذِیْ اَنْزلت و برسولک الّذِی ارسلت بِمَنِّکَ وکرمک یا ارحم الراحمین ویا اکرم الاکرمین ۔ سو عقیدئہ آخرت کا انکار دراصل اندھا پن ہے۔ اور یہ چیز اندھے اور آنکھوں والے کو ایک برابر سمجھنے اور حکمتوں بھری اس کائنات کو اندھیر نگری قرار دینے کے متراف ہے۔ جو کہ فی البداہت غلط اور عقل و نقل دونوں کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ سو اخلاقی تقاضوں کے اعتبار سے عقیدئہ آخرت ناگزیر ہے ورنہ یہ سارا کارخانہ ہست وبود عبث و بیکار قرار پاتا ہے۔ " اعمیٰ " سے یہاں پر مراد عقل اور دل کے اندھے ہیں۔ اور " بصیر " سے مراد وہ ہیں جو بصارت کے ساتھ بصیرت کی دولت بھی رکھتے ہیں بلکہ بصیرت کی دولت بصارت سے بھی کہیں بڑھ کر اور اصل دولت ہے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید -
Top