Kashf-ur-Rahman - Al-Ghaafir : 58
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ۙ۬ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الْمُسِیْٓءُ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَلَا الْمُسِيْٓءُ ۭ : اور نہ بدکار قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَتَذَكَّرُوْنَ : تم غور و فکر کرتے ہو
اور اندھا اور دیکھنے والا دونوں برابر نہیں ہوتے اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کئے وہ بدکار دونوں برابر نہیں ہوتے تم لوگ بہت ہی کم غور کرتے ہو۔
(58) اور اندھا اور دیکھتا دونوں برابر نہیں ہوتے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ اور بدکار دونوں برابر نہیں ہوسکتے تم لوگ بہت کم غور کرتے ہو۔ چونکہ دو نظریوں پر بحث ہورہی ہے بعض لوگ غور کرتے ہیں سوچتے ہیں اور حق بات کو مان لیتے ہیں اور بعض نہ غور کرتے ہیں نہ سوچنے کی عادی ہیں اور نہ مانتے ہیں اس لئے دو فرقے بن گئے ہیں دونوں کے عدم مساوات کا اعلان ہے غور کرنے سوچنے اور ایمان لانے والے کو آنکھوں والا اور سوجھا کا فرمایا ہے اور عدم تدبر والوں کو اندھا فرمایا۔ دوسری بات میں صراحتاً فرمایا کہ اہل ایمان جو ایمان لائے اور نیک اعمال کے پابند بھی رہے اور دوسرے بدکردار یعنی کفرو شرک میں مبتلا اور دین حق کے مخالف یہ دونوں برابر نہیں، آخر میں کم غور کرنے اور کم سوچ بچار کو تو بیخاًفرمایا کہ تم بہت کم غور کرتے ہو۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی دوسری بار پیدا ہونا محال جانتے ہو۔
Top