Tafseer-al-Kitaab - Al-Ghaafir : 58
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُ١ۙ۬ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ لَا الْمُسِیْٓءُ١ؕ قَلِیْلًا مَّا تَتَذَكَّرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْاَعْمٰى : نابینا وَالْبَصِيْرُ : اور بینا وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ اٰمَنُوْا : ایمان لائے وَعَمِلُوا : اور انہوں نے عمل کئے الصّٰلِحٰتِ : اچھے وَلَا الْمُسِيْٓءُ ۭ : اور نہ بدکار قَلِيْلًا : بہت کم مَّا : جو تَتَذَكَّرُوْنَ : تم غور و فکر کرتے ہو
اور (دیکھو، ) اندھا اور آنکھوں والا برابر نہیں ہوسکتا اور (اسی طرح) جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل (بھی) کئے وہ اور بدکار (برابر نہیں ہوسکتے، مگر) تم لوگ کم ہی سمجھتے ہو۔
[20] یہ آخرت کی اخلاقی ضرورت واضح فرمائی کہ اگر آخرت نہیں ہے جیسا کہ یہ لوگ گمان کئے بیٹھے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے اور اس کے خالق کے نزدیک عقل و دل کے اندھے اور عقل و بصیرت رکھنے والے دونوں یکساں ہیں اور نیکوکار اور بدکار میں اس کے نزدیک کوئی فرق نہیں۔ پس آخرت نہ ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ نیک وبد آخرکار مر کر مٹی ہوجائیں اور ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ پھر تو ایک بدکار آدمی بڑا عقلمند ہے کہ مرنے سے پہلے خوب دادعیش دے گیا اور ایک نیک بخت آدمی سخت بیوقوف ہے کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر اخلاقی پابندیاں عائد کئے رہا۔ اس کے علاوہ آخرت کے انکار سے اللہ تعالیٰ کی صفات عدل، حکمت، رحم اور قدرت کی نفی ہوجاتی ہے جو دوسرے الفاظ میں خود خود اللہ تعالیٰ کی نفی کے ہم معنی ہے۔ لہذا آخرت کا ہونا لازمی ہے اور اسے ہونا چاہئے۔
Top