Ahsan-ut-Tafaseer - Az-Zukhruf : 74
اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَۚۖ
اِنَّ الْمُجْرِمِيْنَ : بیشک مجرم لوگ فِيْ عَذَابِ جَهَنَّمَ : جہنم کے عذاب میں خٰلِدُوْنَ : ہمیشہ رہنے والے ہیں
(اور کفار) گنہگار ہمیشہ دوزخ کے عذاب میں رہیں گے
74۔ 80۔ اوپر اہل جنت کا ذکر تھا ان آیتوں میں اہل دوزخ کا ذکر فرمایا یہ وہ منکر شریعت لوگ ہیں جو سب شفاعتوں کے بعد ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہیں گے کیونکہ صحیح بخاری 4 ؎ و مسلم کے حوالہ سے ابو سعید ؓ خدری کی شفاعت کی حدیث جو ایک جگہ گزر چکی ہے اس میں ہے کہ جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ ہمیشہ دوزخ میں نہ رہے گا سورة النسا میں گزر چکا ہے کہ دوزخ میں ہمیشہ رہنے والے لوگوں کی پہلی کھال جب جل جائے گی تو اسی وقت ان کی دوسری کھال پیدا ہوجائے گی ان آیتوں میں عذاب کے ہلکے نہ ہونے کا جو ذکر ہے سورة النساء کی آیتوں سے اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔ صحیح 1 ؎ مسلم کے حوالہ سے ابوذر ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو اپنی ذات پاک پر حرام ٹھہرا لیا ہے ان آیتوں میں یہ جو ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر ظلم سے عذاب نہیں کیا بلکہ ان کے اعمال کی سزا میں ان کو یہ عذاب کیا گیا ہے یہ حدیث گویا اس کی تفسیر ہے مستدرک 2 ؎ حاکم بیہقی کی بعث و نشور تفسیر ابن ابی حاتم وغیرہ میں عبد اللہ ؓ بن عباس سے روایت ہے کہ جب یہ دوزخی لوگ دوزخ کے داروغہ سے یہ التجا کریں گے کہ مالک ان لوگوں کی موت کی اللہ تعالیٰ سے دعا کرے تو ہزار برس تک ان لوگوں کی التجا کا کچھ جواب نہ ملے گا پھر ہزار برس کے بعد یہ جواب ملے گا کہ دنیا میں تم لوگوں نے اللہ کے حکموں کو جھٹلایا اس لئے اب یہی تمہاری سزا ہے کہ تم ہمیشہ اسی عذاب میں گرفتار رہو گے۔ حاکم نے حضرت عبد اللہ ؓ بن عباس کی اس روایت کو صحیح کہا ہے مشرکین کا یہ اعتقاد تھا کہ بھید کے طور پر اسلام کی مخالفت میں جو باتیں کی جاتی ہیں اللہ تعالیٰ ان باتوں کی نہیں سنتا اس کے جواب میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بھید کی باتیں اور مشہورے سب سنتا ہے اسی واسطے یہ لوگ بھید کے مشورہ کے بعد جو بات ٹھہراتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنی تدبیر سے اسی بات کو مٹا دیتا ہے۔ مثلاً بھید کے مشورہ کے بعد ان لوگوں نے مکہ کے مسافروں کے ذریعہ سے اسلام کو ترقی دی۔ صحیح بخاری 3 ؎ و مسلم وغیرہ میں عباد ؓ بن الصامت سے روایت ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اہل مدینہ میں سے قبیلہ خزرج کے کچھ لوگ حج کے ارادہ سے مکہ کو آئے اور منیٰ پہاڑ کی گھاٹی میں انہوں نے اسلام کی بیعت کی اور اللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں میں سے بارہ شخص چودہری اسلام کے پھیلانے کے لئے مقرر کئے ان چودہریوں کو نقیب کہتے ہیں۔ اس بیعت کے کرنے والے اہل مدینہ کا نام انصار قرار پایا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کے مددگار ہیں عبادہ ؓ بن الصامت بھی ان بارہ چودہریوں میں سے ہیں۔ ان چودہریوں نے مدینہ اور اطراف مدینہ میں بڑی کوشش سے اسلام پھیلایا ہجرت سے پہلے دو ہزار کے قریب مسلمان نظر آنے لگے حاصل کلام یہ ہے کہ مشرکین مکہ نے جن مسافرین مکہ کو اسلام سے روکنا چاہا تھا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے منصوبہ کو بگاڑ کر انہیں مسافرین مکہ کے ذریعہ سے جس طرح اسلام کو ترقی دی اس کا مطلب اس حدیث سے اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ (1 ؎ صحیح ملمر باب تحریم الظلم ص 319 ج 2۔ ) (2 ؎ تفسیر فتح القدیر ص 552 ج 4۔ ) (3 ؎ صحیح بخاری باب وفود الانصار الی النبی ﷺ وبیعۃ العقبۃ ص 550 ج 1۔ )
Top