Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Hadid : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِرَسُوْلِهٖ : اس کے رسول پر يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ : دے گا تم کو دوہرا حصہ مِنْ رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں سے وَيَجْعَلْ لَّكُمْ : اور بخشے گا تم کو۔ بنا دے گا تمہارے لیے نُوْرًا : ایک نور تَمْشُوْنَ بِهٖ : تم چلو گے ساتھ اس کے وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
مومنو ! خدا سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ وہ تمہیں اپنی رحمت سے دگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمہارے لئے روشنی کر دے گا جس میں چلو گے اور تم کو بخش دے گا اور خدا بخشنے والا مہربان ہے
28۔ 29۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کے موافق یہ آیت ایماندار اہل کتاب کی شان میں ہے حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جو لوگ موسیٰ (علیہ السلام) ‘ عیسیٰ (علیہ السلام) پر اور تورات اور انجیل پر ایمان لا چکے ہیں اور ان کے دل میں خدا کا خوف بھی ہے ان کو قرآن اور نبی آخر الزمان پر بھی ضرور ایمان لانا چاہئے کیونکہ بغیر اس کے تورات و انجیل میں جو اللہ کا عہد ہے وہ پورا نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ عہد ہے جس کا ذکر سورة آل عمران میں گزر چکا ہے۔ پھر فرمایا اگر یہ لوگ ایسا کریں گے تو ان کے دونوں زمانے کے عمل قابل اجر قرار پا کر ان کو دوہرا اجر دیا جائے گا ورنہ عہد شکنی کے گناہ میں ان سے مواخذہ کیا جائے گا صحیح مسلم کی اور بوہریرہ ؓ کی حدیث اوپر گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اہل کتاب میں سے جو شخص میرا حال سنے گا اور پھر شریعت محمدی کا تابع نہ ہوگا اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے ابو موسیٰ اشعری کی صحیح بخاری 1 ؎ و صحیح مسلم کی حدیث بھی اوپر گزر چکی ہے جس میں اہل کتاب کے دوہرے اجر کا ذکر ہے۔ یہ حدیثیں اہل کتاب کے اعمال کے دوہرے اجر اور اعمال کے اکارت ہوجانے کی تفسیر میں ہیں نور سے مقصود وہی پل صراط پر کی روشنی ہے جس کا ذکر اوپر گزرا۔ اب آگے فرمایا ایماندار اہل کتاب کو یہ دوہرا اجر اس واسطے دیا گیا کہ اہل کتاب میں سے جو لوگ نبی آخر الزمان پر اور قرآن پر ایمان نہیں لائے ان کو قیامت کے دن اپنی حالت پر افسوس ہو کہ یہ اللہ کے فضل کا دوہرا اجر انہوں نے اپنے ہاتھ سے کھویا۔ اس تفسیر کی صورت میں لئلایعلم میں لا زائد ہے۔ جو اکثر کلام عرب میں زائد آیا کرتا ہے۔ سوا حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے اور سلف کا قول اس آیت کی تفسیر میں یہ ہے کہ آیت اولئک یو تون اجرھم مرتین میں اور ابو موسیٰ اشعری کی حدیث میں مومنین اہل کتاب کے دوہرے اجر کا جو ذکر ہے اس کو مومنین اہل کتاب اپنے فخر کے طور پر مومنین امت محمدیہ کے رو برو اکثر باتیں کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومنین امت محمدیہ کے حق میں یہ آیت نازل فرمائی۔ اس قول کے موافق حاصل معنی آیت کے یہ ہیں کہ جس طرح مومنین اہل کتاب دو شریعتوں کی پابندی کے معاوضہ میں دوہرا اجر پائیں گے اسی طرح مومنین امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ ایک ہی شریعت کی پابندی کے معاوضہ میں دوہرا اجر عطا فرمائے گا تاکہ اہل کتاب یہ نہ جان لیں کہ دوہرے اجر کو انہیں کے ساتھ خصوصیت ہے۔ مومنین امت محمدیہ اس خصوصیت کے حاصل کرنے کی کسی طرح قدرت نہیں رکھتی۔ اور یہ اللہ کا ایک فضل ہے جس کو کوئی روک نہیں سکتا اس تفسیر کی بناء پر لئلایعلم میں لا زائد نہیں ہے۔ مسند امام احمد صحیح 2 ؎ بخاری وغیرہ میں عبد اللہ بن عمر ؓ کی حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے لے کر قیامت تک کے زمانہ کو ایک دن فرض کیا ہے جس دن کہ عرص کے وقت سے شام تک کے عملوں کے معاوضہ میں امت محمدیہ کو دوہرے اجر کے ملنے کا ذکر ہے اس حدیث سے اس آخری قول کی بڑی تائید ہوتی ہے بہتر یہ ہے کہ مرکب شان نزول کے طور پر مومنین اہل کتاب و مومنین امت محمدیہ دونوں کے حق میں آیت کا نزول ٹھہرایا جائے۔ ان دونوں حالتوں میں فرق اسی قدر ہے کہ اہل کتاب کا دوہرا اجر دو شریعتوں کی پابندی کے معاوضہ میں ہوگا اور امت محمدیہ کا دوہرا اجر فقط ایک ہی شریعت کی پابندی کے معاوضہ میں اور یہ اللہ کا ایک فضل ہے۔ (1 ؎ صحیح مسلم باب وجوب الایمان برسالۃ نبینا ﷺ الخ ص 86 ج 1 و صحیح بخاری باب تعلیم الرجل امتہ واھلہ ص 20 ج 1۔ ) (2 ؎ صحیح بخاری باب ما ذکر عن بنی اسرائیل ص 491 ج 1۔ )
Top