Tafheem-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 29
قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰهًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ
قَالَ : وہ بولا لَئِنِ : البتہ اگر اتَّخَذْتَ : تونے بنایا اِلٰهًا : کوئی معبود غَيْرِيْ : میرے سوا لَاَجْعَلَنَّكَ : تو میں ضرور کردوں گا تجھے مِنَ : سے الْمَسْجُوْنِيْنَ : قیدی (جمع)
فرعون نے کہا”اگر تُو نے میرے سوا کسی اور کو معبُود مانا تو تجھے بھی اُن لوگوں میں شامل  کر دوں گا جو قید خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔“ 24
سورة الشُّعَرَآء 24 اس گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی " معبود " کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا۔ یعنی یہ کہ اسے بس پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا استحقاق پہنچتا ہے، اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے استمداد و استعانت کے لیے دعائیں مانگیں۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اور سیاسی معنوں میں بھی بالا دست ہے، اور اسے یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے، اور انسانوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون برتر مان کر اس کے آگے جھک جائیں، یہ چیز زمین کے مجازی فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کردی تھی، نہ آج وہ اسے ماننے کے لیے تیار ہیں۔ وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں ہم مختار مطلق ہیں، کسی معبود کو ہماری سیاست اور ہمارے قانون میں دخل دینے کا حق نہیں ہے۔ دنیوی حکومتوں اور بادشاہوں سے انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی پیروی کرنے والے مصلحین کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے۔ انہوں نے ان سے خداوند عالم کی حاکمیت وبالا دستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے، اور یہ اس کے جواب میں نہ صرف یہ کہ اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعویٰ پیش کرتی رہی ہیں بلکہ انہوں نے ہر اس شخص کو مجرم اور باغی ٹھہرایا ہے جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے۔ اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے۔ اگر معاملہ پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا ہوتا تو اس کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰ دوسرے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ رب العالمین کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں۔ اگر صرف اسی معنی میں توحید فی العبادت کی دعوت موسیٰ ؑ نے اس کو دی ہوتی تو اسے غضب ناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کچھ کرتا تو بس یہ کہ اپنا دین آبائی چھوڑنے سے انکار کردیتا، یا حضرت موسیٰ سے کہتا کہ میرے مذہب کے پنڈتوں سے مناظرہ کرلو۔ لیکن جس چیز نے اسے غضبناک کردیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ ؑ نے رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اس طرح ایک سیاسی حکم پہنچایا کہ گویا وہ ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک حاکم برتر کا پیغامبر آ کر اس سے اطاعت امر کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس معنی میں وہ اپنے اوپر کسی کی سیاسی و قانونی برتری ماننے کے لیے تیار نہ تھا، بلکہ وہ یہ بھی گوارا نہ کرسکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم برتر مانے۔ اسی لیے اس نے پہلے " رب العالمین " کی اصطلاح کو چیلنج کیا، کیونکہ اس کی طرف سے لائے ہوئے پیغام میں محض مذہبی معبودیت کا نہیں بلکہ کھلا کھلا سیاسی اقتدار اعلیٰ کا رنگ نظر آتا تھا۔ پھر جب حضرت موسیٰ نے بار بار تشریح کر کے بتایا کہ جس رب العالمین کا پیغام وہ لائے ہیں وہ کون ہے، تو اس نے صاف صاف دھمکی دی کہ ملک مصر میں تم نے میرے اقتدار اعلیٰ کے سوا کسی اور کے اقتدار کا نام بھی لیا تو جیل کی ہوا کھاؤ گے۔
Top