Ahsan-ut-Tafaseer - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
جن لوگوں نے اپنے دین میں (بہت سے) راستے نکالے اور کئی کئی فرقے ہوگئے ان سے تم کو کچھ کام نہیں۔ ان کا کام خدا کے حوالے پھر جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں وہ ان کو (سب) بتائے گا۔
بعضے مفسروں نے گروہ درگروہ یہود نصارا اور مشرکین کو ٹھہرایا ہے اور آیت کو درگذر کی آیتوں میں شمار کر کے جہاد کی آیت سے منسوخ کہا ہے لیکن اوپر صحیح حدیث سے ثابت ہوچکا ہے کہ اس امت کے اہل قبلہ میں سے بھی تہتر 73 گروہ ہیں اس لئے صحیح مذہب یہی ہے کہ آیت عام ہے اور آیت جہاد سے منسوخ نہیں ہے کیونکہ اہل قبلہ سے جہاد نہیں ہے پھر انہیں آیت کے معنے میں جہاد کے حکم کا انتظار ہی نہیں تو وہ آیت آیات درگذر میں شمار ہو کر آیت جہاد سے منسوخ کیونکر ہوسکتی ہے علاوہ اس کے اوپر بیان ہوچکا ہے کہ آیت جہاد سے کوئی درگذر کی آیت منسوخ نہیں ہے عبادت الٰہی کے طریقہ کو دین کہتے ہیں حرام حلال کے احکام ہر ایک نبی کے عہد میں جو نازل ہوئے ان احکام کے مجموعہ کو شریعت کہتے ہیں۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ ؓ کی حدیث گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ مصلحت وقت کے لحاظ سے احکام شرعی ہر نبی کے زمانہ میں جدا جدا نازل ہوئے ہیں مگر عبادت الٰہی کا طریقہ جس کو دین کہتے ہیں سب انبیاء کا ایک ہے الٰہی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے جو احکام کی پوری پابندی کرے۔ کے معنے اللہ کو ایک جاننا۔ لیکن یہ اللہ کا ایک جاننا یا تو اللہ کے خالق نازل ہوئے ہیں ان اور رازق ہونے کے باب اور توحید ہیں ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ آسمان و زمین اور رزق کے سبب یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہے ان چیزوں کے پیدا کرنے میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے اس توحید کا مشرکین یہود نصارا کسی کو انکار نہیں ہے اس لئے قرآن شریف میں اس توحید کے ثبوت کی بحث نہیں ہے بلکہ قرآن شریف میں جگہ جگہ اس توحید کی بحث ہے جو توحید عبادت کہتے ہیں اس توحید عبادت کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان کا خالق و رازق اللہ تعالیٰ سے تو اسی کی خالص عبادت اور اسی کے احکام کی پابندی اور اسی کے رسولوں کی فرمانبرداری انسان پر لازم ہے۔ اس توحید عبادت میں لوگوں کے الگ الگ فرقے ہوگئے ہیں کوئی ستارہ پرست ہے کوئی آتش پر شت کوئی بتوں کو پوجتا ہے کوئی عیسیٰ (علیہ السلام) کو معبود بتاتا ہے کسی نے احکام الٰہی کی پابندی چھوڑ کر ایسی ایجادی باتوں کو پکڑا ہے جس کو شرع میں بدعت کہتے ہیں ان مختلف فرقوں کو اس آیت میں فرمایا کہ شیطان کے بہکانے سے عبادت الٰہی کے طریقہ میں ان لوگوں نے اپنی طرف سے راہیں نکالی ہیں جو راہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے برخلاف ہیں اور ان راہوں پر چلنے والے یا وہ لوگ ہیں جو مشرک نجات کے راستہ سے بالکل دور ہیں یا وہ لوگ ہیں جو بدعتی قابل مواخذہ کے ہیں۔ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے جب تم نے ان لوگوں کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تو تمہارا فرض ادا ہوگیا اب ان میں سے جو فرقہ اللہ کے حکم کو نہ مانے گا اس کا کچھ الزام تم پر نہیں کہ ایسے لوگوں کو تم اللہ کے حوالہ پر چھوڑ دو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بداعمالی کے مواخذہ کے ہیں۔ پھر فرمایا اے رسول اللہ کے جب تم نے ان لوگوں کو اللہ کا حکم پہنچا دیا تو تمہارا فرض ادا ہوگیا اب ان میں سے جو فرقہ اللہ کے حکم کو نہ مانے گا اس کا کچھ الزام تم پر نہیں ہے ایسے لوگوں کو تم اللہ کے حوالہ پر چھوڑ دو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی بداعمالی کے موافق ان کو سزادیوے گا۔ اس سزا کا مطلب یہ ہے کہ مشرک لوگ تو ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور بدعتی فرقہ میں سے جن لوگوں کی بدعت حد شرک تک نہ پہنچے ہوگی وہ اللہ کے حکم کے موافق ایک وقت مقررہ تک دوزخ میں رہ کر پھر عذاب دوزخ سے نجات پائیں گے اور جنت میں داخل ہونے کا انہیں حکم مل جاوے گا۔ صحیح مسلم کے حوالہ سے جابر ؓ کی حدیث اوپر گذر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص شرک سے کم ورجہ کے گناہ کر کے بغیر توبہ کے مرجاویگا وہ آخر کو جنت میں داخل ہوگا اور جو شرک کی حالت میں بغیر توبہ کے مرجاویگا وہ آخر کہ جنت میں داخل ہوگا اور جو شرک کی حالت میں بغیر توبہ کے مرجاوے گا وہ ہیمشہ دوزخ میں رہے گا۔ یہ حدیث آیت کو گویا تفسیر ہے آیت اور حدیث کو ملا کر حاصل مطلب یہ ہوا کہ ان مختلف فرقوں میں جن کا ذکر آیت میں ہے جو ایسے لوگ ہیں کہ عبادت الٰہی میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں بیرہ توبہ کے اور شرک سے باز آنے کے ان کی مغفرت کی کوئی صورت نہیں ہاں جو لوگ شرک سے کم درجہ کے گناہ کر کے غیر توبہ کے مرجاویں گے ان کی مغفرت کی امید ہے :۔
Top