Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
الَّذِيْنَ
: وہ لوگ جنہوں نے
فَرَّقُوْا
: تفرقہ ڈالا
دِيْنَهُمْ
: اپنا دین
وَكَانُوْا
: اور ہوگئے
شِيَعًا
: گروہ در گروہ
لَّسْتَ
: نہیں آپ
مِنْهُمْ
: ان سے
فِيْ شَيْءٍ
: کسی چیز میں (کوئی تعلق)
اِنَّمَآ
: فقط
اَمْرُهُمْ
: ان کا معاملہ
اِلَى اللّٰهِ
: اللہ کے حوالے
ثُمَّ
: پھر
يُنَبِّئُهُمْ
: وہ جتلا دے گا انہیں
بِمَا
: وہ جو
كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
: کرتے تھے
جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے یقینا ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے وہی ان کو بتائے گا کہ انہوں نے کیا کچھ کیا تھا
ارشاد ہوتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَھُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْئٍ ط اِنَّمَا اَمْرُھُمْ اِلَی اللہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَ ۔ مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا ج وَمَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا وَھُمْ لَا یُظلَمُوْنَ ۔ قُلْ اِنَّنِیْ ھَدٰنِیْ رَبِّیْٓ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ 5 ج دِیْنًا قِیَمًا مِّلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا ج وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ج وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ۔ قُلْ اَغَیْرَ اللہِ اَبْغِیْ رَبًّا وَّ ھُوَ رَبُّ کُلِّ شَیْئٍ ط وَلَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْھَا ج وَلَا تَزِرُ وَازِرَۃٌوّزْرَ اُخْرٰی ج ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ ۔ (الانعام : 159 تا 164) (جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور گروہ گروہ بن گئے یقینا ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے وہی ان کو بتائے گا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا تھا۔ جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا۔ اے محمد ﷺ کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ‘ ابراہیم کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو میری نماز میرے تمام مراسم عبودیت (یا قربانی) میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔ کہو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کروں حالانکہ وہی ہر چیز کا رب ہے ہر شخص جو کچھ کماتا ہے اس کا ذمہ دار وہ خود ہے کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھاتا پھر تم سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے اس وقت وہ تمہارے اختلافات کی حقیقت تم پر کھول دے گا) اس آیت کریمہ میں خطاب نبی ﷺ سے ہے اور آپ کے واسطہ سے دین حق کے تمام پیرو اس کے مخاطب ہیں۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ اصل دین ہمیشہ سے یہی رہا ہے اور اب بھی یہی ہے کہ ایک خدا کو الٰہ اور رب مانا جائے۔ اللہ کی ذات ‘ صفات ‘ اختیارات اور حقوق میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ اللہ کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے آخرت پر ایمان لایا جائے اور ان وسیع اصول و کلیات کے مطابق زندگی بسر کی جائے جن کی تعلیم اللہ نے اپنے رسولوں اور کتابوں کے ذریعہ سے دی ہے۔ یہی دین تمام انسانوں کو اول یوم پیدائش سے دیا گیا ہے۔ بعد میں جتنے مختلف مذاہب بنے وہ سب کے سب اس طرح بنے کہ مختلف زمانوں کے لوگوں نے اپنے ذہن کی غلط اپچ سے یا خواہشات نفس کے غلبہ سے ‘ یا عقیدت کے غلو سے اس دین کو بدلا اور اس میں نئی نئی باتیں ملائیں۔ اس کے عقائد میں اپنے اوہام و قیاسات و اور فلسفوں سے کمی و بیشی اور ترمیم و تحریف کی۔ اس کے احکام میں بدعات کے اضافے کیے۔ خود ساختہ قوانین بنائے۔ جزئیات میں موشگافیاں کیں۔ فروعی اختلافات میں مبالغہ کیا۔ اہم کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنایا۔ اس کے لانے والے انبیاء اور اس کے علمبردار بزرگوں میں سے کسی کی عقیدت میں غلو کیا اور کسی کو بغض و مخالفت کا نشانہ بنایا۔ اس طرح بیشمار مذاہب اور فرقے بنتے چلے گئے اور ہر مذہب و فرقہ کی پیدائش نوع انسانی کو متخاصم گروہوں میں تقسیم کرتی چلی گئی۔ اب جو شخص بھی اصل دین حق کا پیرو ہو اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ان ساری گروہ بندیوں سے الگ ہوجائے اور ان سب سے اپنا راستہ جدا کرلے۔ اس لیے اے پیغمبر اور آپ کے واسطے سے اے مسلمانو ! آپ کا نہ تو ان اہل کتاب سے کوئی تعلق ہونا چاہیے جنھوں نے اصل اللہ کا دین چھوڑ کر عیسائیت اور نصرانیت کے نام سے نئی نئی راہیں نکالیں اور نہ مشرکینِ عرب سے جنھوں نے اصل دین کا نہ صرف حلیہ بگاڑا بلکہ شرک کو اپنا طرز زندگی بنا لیا اس لیے ان سے یکسر لاتعلق ہو کر اس دین کی پیروی کرو جو اللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے اور جس کی روشنی میں ملت ابراہیمی کی حقیقت واضح کردی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ نے اسی حوالے سے مزید تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمانوں تمہیں اس بات سے باخبر رہنا چاہیے کہ جن راہوں پر چل کر اہل کتاب تفرقہ کا شکار ہوئے حتی کہ وہ بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے تم بھی انہی راستوں پر چلو گے اور تمہارے اندر تہتر (73) فرقے بن کے رہیں گے۔ صحابہ نے پریشان ہو کر پوچھا یا رسول اللہ ان میں نجات پانے والا فرقہ کون سا ہوگا فرمایا ما انا علیہ و اصحابی ان میں نجات پانے والے وہ لوگ ہوں گے جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقے پر چلیں گے یعنی جو قرآن و سنت سے راہنمائی لیں گے اور قرآن و سنت کے فہم اور اس کی تعبیر میں صحابہ کو اپنا رہنما بنائیں گے کیونکہ وہ آنحضرت ﷺ کے بلا واسطہ شاگرد ہیں ان کے سامنے قرآن اترا وہ ایک ایک آیت کے شان نزول سے واقف ہیں اور ان کے سامنے قرآن پاک کا دیا ہو انظام زندگی ایک ریاست کی شکل میں نافذ ہوا عدالتوں میں اس کی رہنمائی میں فیصلے ہوتے رہے ‘ ان کا معاشرہ قرآن کے دیئے ہوئے اصولوں پر اٹھایا گیا۔ انھوں نے آنحضرت کے زیر سایہ تربیت پائی اور خود آنحضرت ﷺ کو قرآن پاک کی عملی تصویر کے طور پر دیکھا۔ جس بات کو سمجھنے میں دشواری ہوئی براہ راست حضور سے اس کی راہنمائی حاصل کی اور پھر انہی کی مدد سے قرآن کریم اور اس کی عملی تفصیلات سنت اور حدیث کی شکل میں امت کی اگلی نسلوں تک منتقل ہوئیں۔ اس لیے نجات کا اگر کوئی راستہ ممکن ہوسکتا ہے تو یقینا وہی ہے جس کی طرف آنحضرت ﷺ نے رہنمائی فرمائی ہے۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس امت کی ہدایت کی بنیاد قرآن و سنت ہے جن لوگوں کے نزدیک قرآن و سنت ہی اصل دین کا ماخذ ہیں وہ سارے اس حدیث کے مصداق ہیں ان میں بیشک آپس میں مسائل میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے اور بعض باتوں کی تعبیر میں وہ باہم دگر مختلف بھی ہوں لیکن وہ تمام اصول میں اکٹھے ہیں اس لیے بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ تمام فقہی مکاتب فکر جنھوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں شریعت کی جزئیات مرتب کیں وہ چاہے حنفی ہوں یا شافعی ‘ مالکی ہوں یا حنبلی۔ وہ تمام کے تمام اسی نجات پانے والے گروہ سے متعلق ہیں جنھیں عام اصطلاح میں اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے بلکہ میں ایک قدم آگے بڑھ کر کہتا ہوں کہ ہمارے یہاں جس طبقے کو طبقہ اہلحدیث کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان کا تعلق بھی اسی گروہ سے ہے وہ اگرچہ مسائل میں کچھ نہ کچھ اختلاف رکھتے ہیں لیکن اصول میں یہ تمام مکاتب فکر اور اہلحدیث باہم دگرمشترک ہیں اور ان میں کوئی ایسا اختلاف نہیں جو ان کو اصولی طور پر ایک دوسرے سے جدا کرسکے۔ اختلاف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں خواہش نفس کے غلبہ سے یا عقیدت کے غلو سے نئی نئی باتیں اختراع کی جاتی ہیں اور بدعات کو سنت کے برابر لاکھڑا کیا جاتا ہے یا عقائد میں نئے نئے فلسفوں سے متاثر ہو کر اوہام و قیاسات کو جگہ دے دی جاتی ہے۔ فروع کو اصول کا درجہ دے کر اور غیر اہم کو اہم بنا کر شریعت کا مزاج بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے یا محض اپنے گروہ کی علامت کے طور پر کسی ایسی چیز کو عبادات میں داخل کردیا جاتا ہے جو اپنے تئیں کار ثواب بھی ہو لیکن چونکہ وہ عبادت کا حصہ نہیں اس لیے اس سے دین میں فساد پیدا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے بعد مسلمانوں کو یہ ہدایت کی جارہی ہے کہ اللہ نے آپ کے لیے جو دین کی راہ روشن کی ہے آپ کو اسی پر ثابت قدم رہنا ہے اور جن لوگوں نے نئے نئے راستے نکال کر فرقوں کو وجود دیا ہے اور یا خودمختلف فرقوں میں بٹ گئے ہیں ان سے آپ کو کوئی واسطہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر وہ آپ کی بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ ہرگز پریشان نہ ہوں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کریں وہ وقت دور نہیں جب اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کا ان سے جواب طلب کرے گا اور جس جس محرک اور داعیہ سے انھوں نے دین میں نئی نئی راہیں نکالیں وہ سب کچھ ان کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا۔ ان کے نامہ عمل کا اس طرح ان کے سامنے کھل کے آجانا اور ان کی نیتوں میں چھپے ہوئے فتور کا واشگاف ہوجانا اور دین کے نام پر ان کے مقاصد باطلہ کا لوگوں کے سامنے واضح ہوجانا اگرچہ بجائے خودبہت بڑی رسوائی ہے لیکن یہاں یہ فرمایا جا رہا ہے کہ صرف اس پر اکتفا نہیں کیا جائے گا بلکہ حق و باطل کی کشمکش میں جن لوگوں نے راہ راست اختیار کی انھیں جزا سے نوازا جائے گا اور جن لوگوں نے وہ راستہ اختیار کیا جس کا ابھی تذکرہ ہوا ان کو ان کی برائیوں پر سزا ملے گی چناچہ اگلی آیت کریمہ میں پروردگار نے اپنے اسی اصول کو واضح فرمایا کہ آج اگرچہ ہم عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتے اور ہوسکتا ہے دنیا میں بہت سے لوگوں کو عذاب نہ ملے لیکن آخرت میں ہمارا یہ قانون پوری طرح کارفرما ہوگا تو اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص نیکیوں کا توشہ اپنے ساتھ لائے گا وہ اللہ کی رحمت کے دامن کو پوری طرح اپنے سامنے کشادہ پائے گا کہ ہم اس کی ایک ایک نیکی کو دس گنا اجر کے ساتھ گراں بار کردیں گے بلکہ حدیث کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس نے نیکی کا ارادہ کیا لیکن نیکی کر نہ سکا تو ہم اس کے ارادے کو عمل کا درجہ دے کر اس کے نامہ عمل میں ایک نیکی کا اضافہ کردیں گے لیکن اگر کوئی اپنے ساتھ برائیاں ہی لے کر آتا ہے تو ہم تب بھی اس کے ساتھ انتقام کا سلوک نہیں فرمائیں گے بلکہ اس کی ایک برائی کی سزا ایک ہی کے برابر دی جائے گی نیکیوں کی طرح اسے دس گنابڑھایا نہیں جائے گا اور یہ بھی ہم مہربانی فرمائیں گے کہ اگر اس نے کسی برائی کا ارادہ کیا لیکن پھر یہ ارادہ چھوڑ دیا اور اس کو برا جان کر اس کے ارتکاب سے رک گیا تو ہم محض ارادہ کرنے پر اس کو برائی کی سزا نہیں دیں گے بلکہ اس کے نامہ عمل میں اسے نیکی بنا کر لکھا جائے گا اور اس کو ایک نیکی کا صلہ دیا جائے گا اور اگر اس نے زندگی کا بیشتر حصہ گناہوں میں گزارا لیکن کسی بھی مرحلے پر پہنچ کر اس نے نیکی کا راستہ اختیار کرلیا اور گناہوں سے توبہ کی طرف پلٹا تو اس کے گناہوں نے چاہے زمین و آسمان کے تمام درمیانی حصے کو بھردیا ہو لیکن ہم پھر بھی اسے معاف کردیں گے اور آخر میں فرمایا کہ ان دونوں گروہوں میں سے کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ نہ کسی نیکی کے اجر میں کمی کی جائے گی اور نہ کسی برائی کی سزا میں معیار سے بڑھ کر اضافہ کیا جائے گا۔ اللہ کے جزاو سزا کے اس قانون کو اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ بہت حوصلہ ملتا ہے اور اس کی شان کریمی سے دل جھوم اٹھتا ہے اور پھر کبھی کبھی دل میں ندامت بھی ہونے لگتی ہے کہ اللہ کی عطا و بخشش کا تو یہ حال ہے کہ وہ ایک نیکی کا صلہ دس گنا دیتا ہے اور برائی پر سزا اتنی دیتا ہے جتنی برائی ہے اور پھر برائیوں کی معافی کے لیے اس نے مختلف عطا و بخشش کی راہیں نکال رکھی ہیں کہ کتنی برائیاں ہیں جن کو نیکیاں کھا جاتی ہیں اور پھر توبہ کرنے سے تو بیشمار گناہ بھی دھل جاتے ہیں اور مزید اس کا فضل و کرم یہ ہے کہ اس نے بعض اوقات زندگی میں ایسے رکھے ہیں جس میں اس کی عطا و بخشش پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اس کی نوازشات حد و شمار سے آگے بڑھ جاتی ہیں۔ اس پوری صورت حال کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو آنحضرت کا یہ ارشاد سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ کی رحمت سے دور اور بربادی کا راستہ اختیار کرنے والا اللہ کی اس بےپایاں رحمت کے باوجود صرف وہی بدنصیب ہوسکتا ہے جس نے خود برباد ہونے کا فیصلہ کر رکھا ہو ورنہ اللہ کے یہاں تو مغفرت میں کوئی دیر نہیں البتہ یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہاں مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَہ فرمایا گیا ہے مَنْ عَمِلَ حَسَنَۃً نہیں فرمایا یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ جس نے نیکی کی بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ جو نیکی لے کر آیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے یہاں جس نیکی کا اجر دس گنا بلکہ بعض دفعہ سات سو گنا سے بھی بڑھ جاتا ہے وہ وہ نیکی نہیں جس کو صرف عمل کی صورت دی گئی ہے بلکہ یہ وہ نیکی ہے جس کو سنبھال کر رکھا گیا ہو جس کو ضائع ہونے سے بچایا گیا ہو اور اپنی اصلی شکل و صورت میں اس کا کرنے والا اللہ کے حضور اس کو لے کر پہنچ جائے کیونکہ بہت ساری نیکیاں ایسی ہیں جو گناہوں کی وجہ سے ختم کردی جاتی ہیں جیسے معاذ اللہ کفر و شرک تو سارے ہی اعمال صالحہ کو برباد کردیتے ہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے گناہ ایسے ہیں جو بعض اعمال صالحہ کو باطل اور بےاثر کردیتے ہیں جیسے قرآن کریم میں ہے لَا تُبْطِلُوْا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی یعنی تم اپنے صدقات کو احسان جتلا کر یا ایذا پہنچا کر باطل اور ضائع نہ کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ کا عمل صالح احسان جتانے یا ایذا پہنچانے سے باطل اور ضائع ہوجاتا ہے اسی طرح حدیث میں ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر دنیا کی باتیں کرنا نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو کھا لیتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں جو اعمال صالحہ ‘ نوافل اور تسبیح وغیرہ کیے جاتے ہیں وہ دنیا کی باتیں کرنے سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں صرف نیکی کرنے کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ نیکی یعنی اعمال صالحہ کو موت تک محفوظ رکھ کر اللہ کے حضور لانے کا ذکر فرمایا گیا ہے یعنی اس بات کو ذہن میں مستحضر رہا چاہیے کہ اگر اللہ نے کچھ اعمال صالحہ کرنے کی توفیق عطا کی ہے تو یہ اعمالِ صالحہ صرف اس صورت میں فائدہ دیں گے کہ موت تک کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جس سے اعمال صالحہ کے ضائع یا حبط ہونے کا اندیشہ پیدا ہوجائے۔ آنحضرت ﷺ کو صرف اس حکم دینے پر اکتفا نہیں کیا گیا کہ آپ تفرقہ پیدا کرنے والے لوگوں سے اپنے آپ کو الگ رکھیں بلکہ ساتھ ہی مثبت انداز میں یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ اس غلط طریقے اور غلط راستے کو چھوڑنے کے بعد ہم نے آپ کے لیے اس بات کا انتظام کیا ہے کہ آپ کو یہ بتایا جائے کہ اب آپ کے لیے زندگی کا راستہ کیا ہونا چاہیے چناچہ اگلی آیت کریمہ میں حضور کی زبان سے اعلان کروایا گیا کہ اے پیغمبر ان کو بتا دیجئے کہ اللہ نے مجھے تمام تمہارے غلط راستوں سے بچا کر ایک صراط مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی ہے۔ تم نے جس صراط مستقیم کو چھوڑ کر اپنی اپنی پگڈنڈیاں نکال لی تھیں اور رفتہ رفتہ اس صراط مستقیم سے منحرف ہوگئے اللہ نے وہی صراط مستقیم میرے سامنے کھول دی ہے اور یہ صراط مستقیم وہ مضبوط دین قیم ہے جو ہر طرح کی الجھنوں اور اڑچنوں سے پاک اور ہر طرح کے وسوسوں سے مبرا ‘ ہر طرح کی آمیزشوں سے خالی اور ہر طرح کی انسانی بدعات سے بالا ہے اور یہ وہی صراط مستقیم ہے جسے ملت ابراہیم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے شرک کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو مینارہ نور بنا کے اٹھایا تھا اور اس دور کو ان کی ذات کے فیضان سے منور کیا گیا تھا اور حضرت ابراہیم کا حال یہ تھا کہ قرآن کریم بار بار ان کے ساتھ حنیف کا لفظ استعمال کرتا ہے جس کا معنی ہے ہر طرف سے کٹ کر یکسو ہوجانے والا۔ کہا وہ ابراہیم تو حنیف تھے جو شرک کے تمام آستانوں سے دور ‘ ان کے رویوں سے متنفر ‘ صرف ایک اللہ کے آستانے پر سر جھکانے والے تھے۔ انھیں نہ تخت و تاج اپنے سامنے جھکا سکا اور نہ کوئی بت خانہ اپنی طرف متوجہ کرسکا ان کے گھر کا ماحول جو بت گری اور بت پرستی کی تصویر تھا اور ان کے والد جو شرک کی قوتوں کے مناد اور مبلغ تھے لیکن حضرت ابراہیم نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی اور ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ کا ہو کر زندگی گزاری۔ ان کی پوری زندگی اللہ ہی کے لیے ایثار و قربانی سے عبارت ہے جس میں دور دور تک غیر خدا کی پرچھائیں تک نظر نہیں آتی چناچہ ان کی ذات پر اللہ نے جس صراط مستقیم کو واشگاف کیا تھا آنحضرت سے کہلایا جا رہا ہے کہ وہ صراط مستقیم اب میرے سامنے کھولی گئی ہے اور میں اسی کا مبلغ اور اسی کا پیغمبر بن کر آیا ہوں تم اگر واقعی ملت ابراہیمی کے بارے میں مخلص ہو تو پھر تمہیں میرا اتباع کرنا ہوگا کیونکہ مجھ سے پہلے جو لوگ اپنے پاس اللہ کی کتاب رکھنے کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ کتاب رکھتے ہوئے بھی اس صراط مستقیم سے کوسوں دور ہیں کیونکہ انھوں نے اپنا تعلق شرک سے جوڑ لیا ہے اور جن لوگوں کو حضرت ابراہیم کی اولادہونے کا دعویٰ ہے اور وہ اس نسبت پر فخر کرتے ہوئے نہیں تھکتے انھیں سرے سے خبر ہی نہیں کہ ملت ابراہیم کس چیز کا نام ہے اس لیے آج نجات کا راستہ صرف یہ ہے کہ ملت ابراہیمی پر عمل کرنے کے لیے میرا اتباع کرو اور یہ بھی آپ سے اعلان کروایا گیا کہ میرا اتباع کسی ایک بات میں نہیں بلکہ اللہ نے مجھے جو توحید خالص دے کر بھیجا ہے اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے اس لیے آپ سے کہا جا رہا ہے کہ آپ اس بات کا اعلان کردیں کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ میری پوری زندگی کے کسی معاملے میں اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ میں شرک کے ایک ایک ٹانکے کو توڑ ڈالوں اور لحد سے مہد تک زندگی کے ہر تعلق اور اسلوب کو شرک سے پاک کر کے خالصتاً خدا پرستی کے راستے پر ڈالوں۔ یہ کام اگرچہ آسان نہیں لیکن مجھے بہرحال اس کام کو کرنا ہے۔ اس لیے کہ یہ کام اگرچہ مشکل ہے لیکن اپنی ذات میں سب سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ انسانی زندگی بلکہ کائناتی زندگی کا شرک کرنے کے بعد کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا اس لیے میں ان تمام خطرات کو انگیخت کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کروں گا اور میں سب سے پہلے مسلمان یعنی اللہ کا فرمانبردار بندہ بن کے دکھائوں گا۔ اس راستے میں چاہے کیسی ہی قیامت یں گزر جائیں مجھے بہرحال ایسا ہی کرنا ہے۔ اس آیت کریمہ میں نسک کا جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کا معنی عبادت بھی ہے اور قربانی بھی اور یہاں نماز کے قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا معنی لینا زیادہ مناسب ہے کیونکہ سورة کوثر میں نماز کے بعد قربانی ہی کا ذکر کیا گیا ہے : فصلِ لِربک وانحر (پس اپنے رب کی نماز پڑھ اور قربانی دے) پھر اس کے بعد زندگی اور موت کا ان دونوں کے ساتھ خوبصورت تقابل کیا گیا ہے یعنی نماز کا تعلق زندگی سے اور قربانی کا تعلق موت سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میرا جینا بھی اللہ کے لیے اور میرا مرنا بھی اللہ کے لیے۔ میں جب تک زندہ ہوں میری زندگی نماز کی تصویر ہوگی جو اللہ کی کبریائی کے اعلان سے شروع ہوگی اور اسی کے ساتھ مناجات کرتے ہوئے ختم ہوگی اس میں جسم و جان کی مختلف حالتوں سے اپنے تعلق کے نشیب و فراز کو اللہ کی کبریائی کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے جس سے بتایا گیا ہے کہ میں اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اور زندگی کے ہر دور میں بالکل اسی طرح اللہ کا ہو کر جیوئوں گا جس طرح از اول تا آخر نماز اللہ ہی کے لیے پڑھی جاتی ہے ‘ قیام بھی اسی کے لیے ‘ رکوع بھی اسی کے لیے ‘ قعود بھی اسی کے لیے اور سجود بھی اسی کے لیے۔ اسی طرح زندگی کا ہر دور اسی کی کبریائی سے روشن اور اسی کی ہدایت سے منور ہوگا اور جہاں تک میری موت کا تعلق ہے وہ دولت کمانے ‘ ہوس اقتدار کا شکار ہونے خواہشوں اور آرزوئوں کو پورا کرنے اور دنیوی مہمات کو سر کرنے میں نہیں آئے گی بلکہ زندگی کو اللہ کا عطیہ سمجھ کر اسی کے نام پر قربان کروں گا اور اسی کے دین کی سربلندی کے لیے اپنا خون بہائوں گا اور اپنا سر کٹوائوں گا۔ میری زندگی کی تصویر یہ ہوگی ؎ میں تو کیا میرا سارا مال و ملال میرا گھر بار میرے اہل و عیال میرے ان ولولوں کا جاہ و جلال میری عمر رواں کے ماہ و سال میرا سب کچھ مرے خدا کا ہے یہاں آنحضرت ﷺ سے جس عزم کا اعلان کروایا جا رہا ہے آپ کی امت کا ایک ایک فرد بھی اسی کا مکلف ہے یعنی اس کی زندگی بھی ایسی ہونی چاہیے کہ جس کا ایک ایک لمحہ نماز اور قربانی کی تصویر ہو اور اس کی تمام تگ و تاز اور اس کی تمام سرگرمیاں صرف اللہ کے لیے ہوں اور اس کی پوری زندگی میں کہیں دو عملی کو جگہ نہ مل سکے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ آدمی توحید کے اس قافلے میں شریک ہو کر اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہے اور اللہ کے دین کے غلبے اور مخلوق خدا کی خدمت کے لیے اپنے فرائض کو پوری تندہی سے ادا کرے لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ حالات اللہ کی خالص بندگی کی اجازت نہیں دیتے معاشرے کا بگاڑ یا استبداد کی گرفت ایسی شدید ہوجاتی ہے کہ قدم قدم پر آدمی کو طاغوتی قوتوں سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں ان کی بندگی کرنی پڑتی ہے اس طرح کے حالات میں کسی اللہ کے بندے کا یہ عزم کر کے اٹھنا کہ میں صرف اللہ ہی کے لیے جیوئوں گا اور مروں گا وہ جان پر کھیلنے کے مترادف ہوتا ہے اگر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو یہاں اس کا راستہ دکھایا جا رہا ہے کہ پھر تمہارا طرز عمل وہی ہونا چاہیے جو بارش کے پہلے قطرے کا ہوتا ہے۔ جب زمین موسم کی شدت سے تپ اٹھتی ہے اور گھاس کی آخری پتی تک موسم کی تمازت کی نذر ہوجاتی ہے اور میدانوں میں خاک اڑنے لگتی ہے اور گرمی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر بادل آتا بھی ہے تو بارش کا کوئی قطرہ زمین تک آنے کی ہمت نہیں کرتا وہ جانتا ہے کہ زمین پر جاتے ہی میں جھلس کے ختم ہوجاؤں گا۔ ایسے ہولناک منظر میں یہ فیصلہ کرنا کہ کون ہمت کر کے آگے بڑھے تاکہ پیچھے قطرات کے تسلسل سے موسلادھار بارش برسنے لگے اور زمین کی قسمت بدل جائے یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ کوئی ایک قطرہ اپنی زندگی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائے اور وہ یہ کہے کہ اگر زمین کی قسمت بدلنی ہے تو پھر کسی کو تو قربانی دینا ہوگی میں تمہاری طرف نہیں دیکھوں گا۔ میں خود وہ پہلا قطرہ بنوں گا تاکہ تم میرے حوصلے سے حوصلہ پائو اور پھر مسلسل میرے پیچھے آ کر زمین کو سیراب کردو۔ چناچہ یہ پہلے قطرے کی ہمت کام آتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ایک ہوجاتا ہے۔ یہاں بھی یہی فرمایا جا رہا ہے کہ اگر کبھی حالات کے تیور عام لوگوں کو غلبہ دین کی کاوشوں میں شریک ہونے کا حوصلہ نہ دیں تو پھر مسلمان کہلانے والے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ کہہ کر آگے بڑھے کہ مجھ پر چاہے کیسی قیامت گزر جائے میں یہ فرض ضرور انجام دوں گا تم اگر میرے حوصلے سے حوصلہ پاسکتے ہو تو میرے پیچھے چلے آئو چناچہ اس ایک مثال سے دوسروں کو حوصلہ ملتا ہے اور دین کی خشک کھیتی پھر لہلہانے لگتی ہے۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ کبھی بھی کسی ایسے مشکل کام کے لیے وہ آسانی سے تیار نہیں ہوتی جس میں اسے ایثار و قربانی سے گزرنا پڑے ایسی صورتحال میں ہمیشہ اس کا عذر یہ ہوتا ہے کہ میں تنہا یہ کام کیسے کروں کوئی ساتھ دینے والا نہیں ‘ کوئی آگے چلنے والا نہیں ‘ اکیلا چنا آخر کیا پہاڑ پھوڑے گا میں سوائے اس کے کہ خود کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاؤں اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے اسی حوالے سے یہاں ہدایت دی جا رہی ہے کہ تم میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ یہ کہے اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ” میں سب سے پہلا مسلمان ہوں “} یعنی میں آگے بڑھ کر اس بند راستے کو کھولوں گا اور حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی اس طرح حوصلہ کر کے اٹھتا ہے تو پھر اس کا یہ اٹھنا بےثمر نہیں رہتا۔ اسے دیکھ کر بہت سے لوگ حوصلہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اسی طرح ایک قافلہ بن جاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے فوز و فلاح کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ایک اور بات کی طرف بھی راہنمائی ملتی ہے وہ یہ کہ اس میں اللہ کے رسول سے یہ اعلان کروایا جا رہا ہے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم اس بات کے پابند ٹھہرائے گئے ہیں کہ ہماری زندگی پر صرف اللہ کی حاکمیت ہو اور ہماری پوری زندگی اس کی کبریائی کے اعلان اور اس کے لیے قربانی دیتے ہوئے گزرے اور ہم ہرحال میں اسی کی غیر مشروط اطاعت کریں اور اس کی غلامی کا قلادہ اپنے گلے میں ڈالے رکھیں۔ بالکل اسی طرح اللہ کا رسول بھی اسی کا پابند ہے حالانکہ اللہ کے رسول معصوم ہوتے ہیں اور ہمارے رسول پاک تو کائنات کے گل سرسبد بلکہ تخلیق کائنات کے سبب ہیں لیکن ان کو بھی اسی اطاعت و بندگی کا پابند ٹھہرایا گیا ہے۔ سورة البقرہ کی آخری آیت سے پہلے کی آیت میں مومنوں کو جن باتوں پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے انہی باتوں پر سب سے پہلے آنحضرت کے ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے اس سے اندازہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کی ہمہ گیری ‘ گہرائی اور گیرائی کا عالم کیا ہے۔ اللہ کے رسول سے لے کر ان کے آخری امتی تک سب اسی کے پابند ہیں اور سب اسی کے سامنے سپرانداز ہیں۔ وجہ اس کی کیا ہے اس کا ذکر اگلی آیت میں فرمایا گیا کہ اے پیغمبر ان مشرکینِ مکہ سے کہو کہ میرے عزم صمیم کا اعلان تم نے سن لیا کیا اس کے بعد تم مجھ سے یہ امید رکھ سکتے ہو کہ میں اللہ کے علاوہ کسی اور کو رب بنا لوں گا جبکہ میں اسی کی مخلوق کا ایک فرد ہوں بلکہ اس کی مکلف مخلوق کا نمائندہ اور سربراہ ہوں اور اس کی تمام مخلوقات کا حال یہ ہے کہ وہ ایک رب کے ساتھ کسی اور کو تسلیم نہیں کرتیں کیونکہ خداوند ذوالجلال ہی ہر چیز کا رب ہے جب پوری کائنات کا قبلہ مقصود اللہ کی ذات گرامی ہے تو میں کائنات کی مخالف سمت کا مسافر کیسے ہوسکتا ہوں ؟ پوری کائنات جس سمت میں محو سفر ہے اس کائنات کا کوئی فرد اس کی الٹی سمت میں چلنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ ایسی صورت حال میں تم مجھ سے یہ کیسے امید رکھ سکتے ہو کہ میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنا لوں گا ؟ رہی یہ بات کہ تم اتنی واضح دلیلوں کے بعد بھی اگر راہ راست پر نہیں آنا چاہتے ہو تو یاد رکھو اس سے کسی کا کچھ نہیں بگڑے گا کیونکہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ یہاں جو جس طرح کے اعمال کرتا ہے اسی طرح کی جزا سے بہرہ ور ہوتا ہے ہر آدمی کی برائی کا وبال اس کو خود اٹھانا پڑتا ہے۔ اس راستے میں کوئی کسی کی مدد نہیں کرسکتا ‘ یہاں ہر ایک کو اپنی صلیب خود اٹھانا پڑتی ہے۔ کوئی چاہے کسی سے کتنا قریبی تعلق کیوں نہ رکھتاہو وہ قیامت کے دن کسی اور کی طرف سے جواب دہ نہیں ہوسکتا۔ آنحضرت ﷺ سے جب ولد الزنا کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس جرم میں اس بچے کا کیا قصور جرم اس کے والدین نے کیا وہی اس کی سزا بھگتیں گے۔ ان کی بدکاری کے نتیجے میں جو بچہ پیدا ہوتا ہے معاشرے کو اس سے نفرت کرنے یا اسے طعن دینے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ وہ اپنے والدین کے جرم کی طرف سے جواب دہ نہیں ہے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ ولید بن مغیرہ اور اس کے ساتھی مسلمانوں سے کہتے تھے کہ تم واپس اسلام کو چھوڑ کر اپنے دین میں آجاؤ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ہمارا دین غلط ہے اور کل کو اللہ کے یہاں جب اس بارے میں پوچھا جائے گا تو تم کیا جواب دو گے تو ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر کوئی ایسی بات ہوئی تو ہم اس ذمہ داری کو قبول کریں گے اور آپ کی طرف سے ہم جوابدہ ہوں گے۔ تو اسی آیت کی روشنی میں ان کو جواب دیا گیا ہے کہ ہر آدمی اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ دنیا میں یہ کہنے کی باتیں ہیں قیامت کے دن تو باپ بیٹے کو اور ماں بیٹی کو پہچاننے سے انکار کر دے گی۔ ہر ایک کو اپنے انجام کی فکر ہوگی اور اس دن کی ہولناکی اپنی ذات کے علاوہ کسی اور کے لیے سوچنے کی بھی مہلت نہیں دے گی۔ اس کے بعد فرمایا کہ آج مخالفین کو اگرچہ باتیں سمجھ نہیں آرہیں لیکن ان کو اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ انھیں بہرصورت اور ہمیں بھی اپنے رب ہی کی طرف پلٹنا ہے پھر وہ سب کو بتائے گا کہ تم جو اختلافات کرتے تھے اس کی حقیقت کیا تھی اور تم نے اللہ کے آخری رسول کی دعوت کو قبول نہ کر کے جو جرم کیا ہے اس کا نتیجہ کیا ہے آج تو موقع ہے کہ ان باتوں پر غور کر کے اللہ کے سامنے جانے سے پہلے اپنی سرخروئی کا سامان کرلیں لیکن جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا تو پھر پچھتاوا بھی فائدہ نہیں دے گا۔ یہ سورة جیسا کہ آپ کو معلوم ہے مکی ہے۔ اور اس میں اسلام کے بنیادی عقائد اور تصورات کو بیان کرتے ہوئے عقیدہ توحید کو پوری تفصیلات سمیت بیان کیا گیا ہے اور اس عقیدہ توحید کی وضاحت کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پوری زندگی اور مشرکانہ قوتوں سے ان کی کشمکش کو اس لیے کھول کر بیان کیا گیا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکینِ مکہ دونوں ہی حضرت ابراہیم کے ساتھ اپنے انتساب کا دعویٰ رکھتے تھے اور مشرکینِ مکہ تو اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم ملت ابراہیمی کے وارث ہیں اور انھوں نے اپنے مشرکانہ رویے کو ملت ابراہیمی کا نام دے رکھا تھا اس سورة میں ان کے اس رویے اور ان کے جاہلانہ عقائد پر بڑی تفصیل کے ساتھ تنقید کی گئی ہے اور اس کے بعد ملت ابراہیمی کو پوری وضاحت سے پیش کیا گیا ہے اور آخر میں اس ملت ابراہیمی کے اصل وارث نبی کریم ﷺ سے ملت ابراہیمی کے بنیادی تصورات کا اعلان کروایا گیا ہے اس طرح سے اہل کتاب اور مشرکین مکہ دونوں پر حجت تمام کردی گئی ہے کہ تم اگر واقعی ملت ابراہیمی سے اپنا تعلق رکھتے ہو تو اس کے وارث اب قیامت تک کے لیے محمد رسول اللہ ﷺ اور مسلمان ہیں اور اس کا جلی عنوان اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ جس طرح حضرت ابراہیم نے حنیف بن کر زندگی گزاری یعنی ہر طرف سے کٹ کر صرف اللہ ہی کے ہو کے رہے اور اپنی زندگی اور موت اسی کے حوالے کردی یہی عنوان آج رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کی زندگی کا ہے اگر تم ملت ابراہیمی کے دعوے میں کچھ بھی سچے ہو تو تمہیں آپ کا اتباع کرنا ہے اس طرح بات کو مکمل کرنے کے بعد اب آخری آیت کریمہ میں مشرکینِ مکہ کو آخری تنبیہ کی جا رہی ہے۔
Top