Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 159
اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِیْ شَیْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ یُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے فَرَّقُوْا : تفرقہ ڈالا دِيْنَهُمْ : اپنا دین وَكَانُوْا : اور ہوگئے شِيَعًا : گروہ در گروہ لَّسْتَ : نہیں آپ مِنْهُمْ : ان سے فِيْ شَيْءٍ : کسی چیز میں (کوئی تعلق) اِنَّمَآ : فقط اَمْرُهُمْ : ان کا معاملہ اِلَى اللّٰهِ : اللہ کے حوالے ثُمَّ : پھر يُنَبِّئُهُمْ : وہ جتلا دے گا انہیں بِمَا : وہ جو كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ : کرتے تھے
بیشک جن لوگوں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اپنے دین کو، اور وہ مختلف (فرقے اور) گروہ بن گئے آپس میں، آپ کا ان سے (اے پیغمبر ! ) کوئی واسطہ نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر قیامت کے دن وہ ان کو خبر کر دے گا ان کے ان تمام کاموں کی جو یہ کرتے رہے تھے،
338 آپس میں مختلف گروہ بننے سے مراد ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ جنہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا اپنے دین کو اور وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئے۔ یعنی دین کے اصول و مبادی میں اختلاف کر کے۔ پس حضرات صحابہ اور ائمہ کرام کا اختلاف اس میں داخل نہیں کہ وہ اختلاف اصولی اور بنیادی نہیں بلکہ فروعی ہے۔ اور اس تفرقہ و اختلاف میں یہود و نصاریٰ اور اسلام کے نام لیوا و دعویدار وہ سب فرقے داخل و شامل ہیں۔ جو اہل حق سے بنیادی اختلافات رکھتے ہیں۔ جیسے خوارج و روافض وغیرہ اہل بدعت ۔ کما اختارہ الحافظ ابن کثیر فی تفسیرہ وغیرہ من کبار العلماء و المفسرین ۔ (ابن کثیر، قرطبی اور معارف وغیرہ) ۔ بہرکیف اس بارے پیغمبر کو ہدایت فرمائی گئی کہ جن لوگوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور وہ مختلف فرقوں میں بٹ گئے ان سے آپ کو کوئی سروکار نہیں کہ ہٹ دھرمی اور ہٹ دھرموں کا کوئی علاج نہیں۔ آپ کا کام تو تبلیغِ حق ہے اور بس۔ اور وہ آپ کرچکے۔ اب ان لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور ان کا معاملہ خدا کے حوالے کردو۔ وہی ان سے نمٹے گا اور سب سے اچھے طریقے اور حق و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق نمٹے گا۔ سو ایسے ہٹ دھرموں سے منہ موڑ لو ۔ { فَاَعْرِضْ عَن مَّنْ تَوَلّٰی } - 339 نبوت کا رسالت کا شرف سب سے بڑا شرف : اہل بدعت کے بعض بڑے یہاں اور اس طرح کے دوسرے مواقع پر اپنے ترجمہ میں لکھتے ہیں " اے محبوب " اور وہ بھی کسی فصل وتمیز کے بغیر۔ اور پھر سمجھتے ہیں اور ان کے اتباع و اَذناب کہتے ہیں کہ موصوف نے اس طرح کر کے گویا کوئی بڑا تیر مار دیا ہے۔ حالانکہ قرآن حکیم میں کسی ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو اس لفظ یعنی " محبوب " سے خطاب نہیں فرمایا۔ حالانکہ یہ لفظ بھی عربی زبان کا ہے۔ تو اگر اس کی ایسی کوئی اہمیت ہوتی تو کم از کم کہیں ایک مرتبہ تو پورے قرآن پاک میں اس سے آپ ﷺ کو خطاب فرمایا گیا ہوتا۔ اس کے مقابلے میں آپ ﷺ کو نبی اور رسول کے وصف سے قرآن حکیم میں جابجا خطاب فرمایا گیا ہے۔ کیونکہ یہی وہ سب سے بڑا اہم اور مقدس اعزاز ہے جس سے اللہ پاک اپنے کسی خاص بندے کو مشرف فرماتا ہے۔ اس لئے ہم نے اپنے ترجمے میں ایسے موقع خطاب میں عام طور پر اسی لفظ (اے پیغمبر ! ) کو اختیار کیا ہے۔ نیز یہ کہ اس کو ہم قوسین کے اندر ذکر کرتے ہیں کیونکہ یہ ترجمہ نہیں بلکہ تفسیر و تشریح کے ذیل میں آتا ہے، جبکہ ان کے یہ بڑے صاحب اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتے جس سے ان پر بجا طور پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ آخر یہ متن قرآنی کے کس لفظ کا ترجمہ ہے ؟ جس کا ظاہر ہے ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔ کیونکہ متن قرآنی میں ایسا کوئی لفظ ہے ہی نہیں جس کا ترجمہ اس لفظ " اے محبوب " سے کیا جائے۔ اور جب ایسا کوئی لفظ متن قرآنی میں سرے سے موجود ہی نہیں تو کیا ترجمہ کے اندر ایسے زائد لفظ کا اضافہ کرنا اور وہ بھی بلاکسی اشارہ و فصل کے، کیا یہ قول علی اللہ کے ذیل میں نہیں آتا ؟ ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف اس ارشاد سے پیغمبر کو ایسے ہٹ دھرم لوگوں سے کوئی سروکار نہ رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی۔ اور اسی سے اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ اب پیغمبر کے لئے ان لوگوں سے اعلان براءت کا وقت بھی بہت قریب آ رہا ہے، جیسا کہ اس سے کچھ ہی عرصہ بعد نازل ہونے والی سورة براءت سے بالفعل ہوا۔ 340 پیغمبر کا اصل کام تبلیغِ حق : سو اس میں پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے لوگوں سے آپ کو اے پیغمبر کوئی واسطہ اور سروکار نہیں۔ نہ ان کی اس گمراہی کے ضمن میں اور نہ ان کو راہ راست پر لانے کے سلسلے میں کہ آپ ﷺ کا کام صرف تبلیغ ہے اور بس۔ اور اس کا حق آپ نے بہرحال ادا کردیا۔ پس ان کی کوئی ذمہ داری آپ ﷺ پر نہیں۔ آپ ﷺ ان کی اس کجروی سے قطعی طور پر بری ہیں اور نہ ہی ان کی سزا و جزا اور عقاب و عذاب کے بارے میں کہ یہ سب اللہ کا کام ہے۔ وہ جو چاہے اور جب اور جیسے چاہے ان کو عذاب دے۔ سو پیغمبر کا اصل کام پیغام حق پہنچا دینا ہوتا ہے اور بس۔ آگے لوگوں کو راہ حق پر ڈال دینا یا نہ ماننے والوں پر عذاب لے آنا نہ پیغمبر کی ذمہ داری ہے اور نہ ہی یہ آپ کے بس میں ہے۔ سو پیغمبر کا اصل کام انذا روتبشیر، پیغام حق کی تعلیم و تبلیغ اور راہ حق و ہدایت کی راہنمائی ہوتا ہے اور بس۔ جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرٌ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمَصَیْطِرٍ } ۔ (الغاشیۃ : 21-22) 341 یوم حساب کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے منکروں اور معاندوں کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے وہ ان کو خود خبر کر دے گا ان تمام کاموں کی جو یہ لوگ زندگی بھر کرتے رہے تھے۔ سو قیامت کے روز ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے سے آگاہ کردیا جائے گا۔ اور یہ بتانا اور خبر کردینا کوئی رپورٹ پیش کرنا نہیں ہوگا بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھگتان بھگتنا ہوگا اور اس طور پر کہ زندگی بھر کے کئے کرائے کا سب حساب کتاب چکا دیا جائے گا۔ اچھے کا اچھا اور برے کا برا ۔ فَرَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَیْہِ الْتّکْلَانَ ۔ پس جو لوگ آخرت کے اس ہولناک دن کی جوابدہی سے غافل و لاپرواہ ہو کر باغیانہ اور لاپرواہی کی زندگی گزار رہے ہیں وہ بڑے ہی خسارے میں ہیں ۔ والعیاذ باللہ العزیز الرحمن ۔ بہرکیف اس سے قیامت کے اس یوم حساب کی تذکیر و یاددہانی فرما دی گئی کہ اس روز ہر کسی کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتنا اور اس کا صلہ و بدلہ پانا ہوگا۔ سو اس میں ایک طرف تو منکرین و مکذبین کے لئے تنبیہ و تذکیر ہے کہ غفلت سے چونکیں اور اس دن کی باز پرس کو یاد رکھیں۔ اور دوسری طرف اس میں پیغمبر کے لئے تسلیہ کا سامان ہے کہ آپ ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کردیں۔ وہ ان سے خود نمٹ لے گا ۔ سبحانہ وتعالیٰ -
Top