Ahsan-ut-Tafaseer - Al-A'raaf : 140
قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا اَبْغِيْكُمْ : تلاش کروں تمہارے لیے اِلٰهًا : کوئی معبود وَّ : حالانکہ هُوَ : اس فَضَّلَكُمْ : فضیلت دی تمہیں عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
(اور یہ بھی) کہا کہ بھلا میں خدا کے سوا تمہارے لئے کوئی اور معبود تلاش کروں حالانکہ اس نے تم کو تمام اہل عالم پر فضیلت بخشی ہے ؟
پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم بنی اسرائیل سے نصیحت کے طور پر یہ کہا کہ کیا خدا کے سوا کوئی اور معبود میں تمہارے لئے تلاش کروں بڑے افسوس کی بات ہے کہ جس خدا نے تمہیں ذلت ورسوائی سے رہائی دی فرعون اور قبطی تمہیں خوار و ذلیل سمجھتے تھے قیدیوں کی طرح تمہیں نظر بند کر رکھا تھا اس صاحب قدرت نے ان کے پنجے سے تم کو چھڑایا اور ان دشمنوں کو غارت کر کے تمہارے کلیجے کو ٹھنڈا کیا اور پھر تم پر یہ فضل کیا کہ ان کی سلطنت تمہیں بخشی تمہیں روئے زمین کا خلیفہ بنایا اسے چھوڑ کر اور دین کی عبادت کب زیبا ہے کیا اس کے انعام اور فضل کا یہی شکر اور مقابلہ ہے جس کا وسوسہ تمہارے دل میں گذرا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری ؓ کی حدیث ایک جگہ گذر چکی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی یہ بڑی بردباری ہے جو وہ مشرک لوگوں کے رزق کا سامان کرتا ہے ان کو صحت و تندرستی سے رکھتا ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ شرک ایسا بڑا جرم ہے کہ اس کی سزا میں مشرک لوگوں کا رزق اور تندرستی کا انتظام غیب سے نہ ہوتا تو بجا تھا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی بردباری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے رزق اور تندرست رہنے کا انتظام فرماتا ہے۔ اس آیت میں بت پرستی کا جو ذکر ہے اس کی مذمت کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے اور اس کی تفسیر ہے کہ باوجود شرک کے مشرک لوگوں پر فورا کوئی آفت کیوں نہیں آتی :۔
Top