Fi-Zilal-al-Quran - Al-A'raaf : 140
قَالَ اَغَیْرَ اللّٰهِ اَبْغِیْكُمْ اِلٰهًا وَّ هُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا اَغَيْرَ اللّٰهِ : کیا اللہ کے سوا اَبْغِيْكُمْ : تلاش کروں تمہارے لیے اِلٰهًا : کوئی معبود وَّ : حالانکہ هُوَ : اس فَضَّلَكُمْ : فضیلت دی تمہیں عَلَي : پر الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
پھر موسیٰ نے کہا " کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں ؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قومیں پر فضیلت بخشی ہے
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کلام میں اپنے نظریہ حیات اور اپنے رب کے بارے میں غیرت کی وجہ سے مزید جوش آجاتا ہے۔ ان کا نغمہ تیز تر ہوجاتا ہے اور وہ برہمی کے ساتھ ان کو یاد دلاتے ہیں کہ ابھی ابھی سمندر کے کنارے جو کچھ ہوا تم بھول گئے ہو ، تم اپنے مرتبہ ومقام کا خیال بھی نہیں رکھتے۔ (قَالَ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْكُمْ اِلٰهًا وَّهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ ) ۔ : " پھر موسیٰ نے کہا " کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود تمہارے لیے تلاش کروں ؟ حالانکہ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں دنیا بھر کی قومیں پر فضیلت بخشی ہے " اس دور میں تمام اقوام پر بنی اسرائیل کی فضیلت واضح ہے کہ تمام مشرک اقوام میں سے بنی اسرائیل کو منصب رسالت دیا گیا۔ اس سے بڑی فضیلت اور اس سے زیادہ احسان اور کیا ہوسکتا ہے۔ رسالت ایک عظیم فضل اور عظیم احسان ہے۔ نیز اس وقت بنی اسرائیل کو اس منصب کے لیے بھی چنا گیا۔ کہ وہ اس زمین پر مقتدر اعلیٰ ہوں گے۔ خصوصاً ارض مقدس کو ان کے ہاتھوں واگزار کرنے کا فیصلہ بھی ہوا ، کیونکہ اس دور میں ارض مقدس پر غیر قوموں کا قبضہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان اعزازات کے بعد وہ کس منہ سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ ان کے لیے کوئی الہ تجویز کیا جائے جیسا کہ دوسری قوم نے اپنے لیے الہ تجویز کر رکھے ہیں ، جبکہ ان پر اللہ کا بڑا فضل و کرم تھا۔
Top