Mufradat-ul-Quran - An-Nahl : 118
وَ عَلَى الَّذِیْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْكَ مِنْ قَبْلُ١ۚ وَ مَا ظَلَمْنٰهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ
وَ : اور عَلَي : پر الَّذِيْنَ هَادُوْا : جو لوگ یہودی ہوئے (یہودی) حَرَّمْنَا : ہم نے حرام کیا مَا قَصَصْنَا : جو ہم نے بیان کیا عَلَيْكَ : تم پر (سے) مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَ : اور مَا ظَلَمْنٰهُمْ : نہیں ہم نے ظلم کیا ان پر وَلٰكِنْ : بلکہ كَانُوْٓا : وہ تھے اَنْفُسَهُمْ : اپنے اوپر يَظْلِمُوْنَ : ظلم کرتے
اور جو چیزیں ہم تم کو پہلے بیان کرچکے ہیں وہ ہم نے یہودیوں پر حرام کردی تھیں۔ اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہیں کیا بلکہ وہی اپنے آپ پر ظلم کیا کرتے تھے۔
وَعَلَي الَّذِيْنَ هَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ ۚ وَمَا ظَلَمْنٰهُمْ وَلٰكِنْ كَانُوْٓا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ 118؁ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں نفس الَّنْفُس : ذاته وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، ( نس ) النفس کے معنی ذات ، وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے
Top