Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
کہہ دے اگر آخرت کا گھر اللہ کے ہاں سب لوگوں کو چھوڑ کر خاص تمہارے ہی لیے ہے تو موت کی آرزو کرو، اگر تم سچے ہو۔
اس آیت سے ملتا جلتا مضمون سورة جمعہ (6 تا 8) میں بیان ہوا ہے، یہاں ”وَلَنْ يَّتَمَنَّوْهُ“ اور وہاں ”وَلَا يَتَمَنَّوْنَهٗٓ اَبَدًۢا“ ہے۔ اس میں حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہاں دعویٰ اللہ کی دوستی کا ہے، جس کی نفی صرف ”لا“ کے ساتھ کی گئی، یہاں دار آخرت کا یہودیوں کے لیے خاص ہونے کا ہے جو اس سے بڑا دعویٰ ہے، کیونکہ اللہ کی دوستی ذریعہ ہے اور جنت کا حصول نتیجہ ہے، اس لیے یہاں نفی صرف ”لن“ کے ساتھ کی گئی، جو تاکید کے لیے ہے۔ (رازی) واللہ اعلم ! اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں، ایک یہ کہ اگر تم اس دعویٰ میں سچے ہو کہ جنت میں تمہارے سوا کوئی نہیں جائے گا تو موت کی تمنا کرو، کیونکہ جس شخص کو یقین ہو کہ وہ مرنے کے بعد جنت میں جائے گا وہ تو ضرور موت کی تمنا کرے گا، تاکہ جلد از جلد جنت میں پہنچ جائے۔ ابن جریر اور بعض دوسرے مفسرین نے یہی معنی کیے ہیں، مگر اس پر یہ سوال باقی رہتا ہے کہ یہود ہی موت کی تمنا کیوں کریں، مسلمانوں کو بھی موت کی تمنا کرنی چاہیے، جب کہ موت کی تمنا تو مسلمان بھی کم ہی کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہود نسلی تفاخر میں مبتلا تھے، وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور محبوب ہونے کے دعوے دار تھے اور جنت کے واحد ٹھیکے دار بنے ہوئے تھے، جب کہ مسلمانوں کا ایمان خوف اور امید کے درمیان ہے، وہ اتنے بےخوف ہوتے ہی نہیں کہ اتنا بڑا دعویٰ کریں۔ (سورۂ مؤمنون : 57 تا 61) اس کے باوجود مسلمانوں میں شہادت کا شوق اور میدان جنگ میں موت کو موت کی جگہوں سے تلاش کرنا عام تھا، جب کہ یہودی اتنے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود آخرت سے سراسر ناامید تھے۔ [ دیکھیے سورة ممتحنۃ : 13 ] اس لیے وہ کبھی مرنا نہیں چاہتے تھے اور بزدلی کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ یہاں بھی فرمایا کہ وہ اپنے اعمال بد کی وجہ سے کبھی موت کی تمنا نہیں کریں گے۔ اس آیت میں یہود کے زبانی دعوے اور دل کی چوری کی حقیقت کھول کر بیان کی گئی ہے کہ وہ پیغمبر آخر الزمان ﷺ کو اتنے یقین سے پہچانتے تھے کہ آپ کے کہنے پر کبھی موت کی تمنا کرنے پر تیار نہ تھے۔ دوسری تفسیر ابن عباس ؓ نے فرمائی ہے کہ (فَتَمَنَّوُا الْمَوْت) کا معنی ہے کہ دونوں گروہوں (یہودیوں اور مسلمانوں) میں سے جو جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی بد دعا کرو تو انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی اس بات کا انکار کردیا۔“ [ ابن أبی حاتم : 1؍247، ح : 937، بسند حسن ] یعنی اس آیت میں یہود کو دعوت مباہلہ دی گئی کہ اگر تم اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہو تو فریقین میں سے جو جھوٹا ہے اس کے لیے موت کی دعا کرو، مگر انھوں نے اس سے انکار کردیا۔ سورة جمعہ (6 تا 8) میں بھی یہی مضمون بیان ہوا ہے، ان میں بھی یہود کو مباہلہ کی دعوت دی گئی ہے، جیسا کہ سورة آل عمران (61) میں نجران کے نصرانیوں کو مباہلہ کی دعوت دی گئی اور جس طرح نصرانی مباہلہ سے ڈر گئے تھے یہود بھی بددعا سے ڈر گئے اور جھوٹے گروہ کی موت کی تمنا نہ کی۔ ابن عباس ؓ نے فرمایا، اگر یہودی اس دن جب آپ ﷺ نے ان سے یہ بات کہی، موت کی تمنا کرتے تو زمین پر جو یہودی بھی تھا مرجاتا۔ [ ابن ابی حاتم : 1؍247، ح : 938، بسند حسن ] حافظ ابن کثیر ؓ نے اسی معنی کو صحیح لکھا ہے، حافظ ابن قیم ؓ نے بھی مدارج السالکین میں اس معنی کو ترجیح دی ہے، اور ہمارے استاذ مولانا محمد عبدہ ؓ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔ اس تفسیر پر یہ اعتراض آتا ہی نہیں کہ یہود ہی موت کی تمنا کیوں کریں، مسلمان کیوں نہ کریں، نہ اس کے جواب کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے، کیونکہ جھوٹے کی موت کی تمنا اور بددعا صرف یہود نے نہیں بلکہ مسلمانوں اور یہود دونوں نے کرنی ہے۔ جس کے لیے مسلمان تو آج بھی اللہ کے فضل سے تیار ہیں، مگر یہود و نصاریٰ آج بھی اس کی جرأت نہیں کرتے اور نہ کبھی کرسکیں گے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
Top