Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اِن سے کہو کہ اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہیے کہ موت کی تمنا کرو، اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو
] قُلْ : آپ کہے ] [ اِنْ كَانَتْ : اگر ہے ] [ لَكُمُ : تمہارے لیے ] [ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخری گھر ] [ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے پاس ] [ خَالِصَةً : الگ کرنے والا ] [ مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ : دوسرے لوگوں سے ] [ فَتَمَنَّوُا : تو تم لوگ تمنا کرو ] [ الْمَوْتَ : اگر تم لوگ ہو ] [ اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم لوگ ] [ صٰدِقِيْنَ : سچ کہنے والے ] 1 اللغۃ اس قطعہ میں پہلی دفعہ آنے والے نئے مادے (یا ان سے بنے لفظ) تو صرف چار ہیں۔ پہلی آیت ایک مکمل شرطیہ جملہ ہے مگر اس میں بھی بیان شرط والا حصہ خاصا لمبا ہے، لہٰذا ہم اس کے الگ الگ کلمات سے بحث کرنے کے بعد اس کے ترجمہ کی بات کریں گے۔ 2:58:1 (1) [ قُلْ اِنْ کَانَت لَکُمْ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ عِنْدَ اللّٰہِ خَالِصَۃً مِنْ دُوْنِ النَّاسِ ] ۔ ’ قُلْ ‘ (تو کہہ، آپ فرما دیجئے، کہہ دیجئے) مادہ، وزن وغیرہ کی بحث کے لیے دیکھئے [ 2:50:1 (2)] ۔ ’ اِنْ ‘ (اگر) ’ اِنْ ‘ شرطیہ کے استعمال کے لیے دیکھئے البقرہ :23 [ 2:17:1 (1)] ۔ ” کانت “ (تھی، ہے) یہ فعل ناقص ” کان یکون “ کا صیغہ ماضی واحد مؤنث غائب ہے۔ اس فعل کے معنی و استعمال اور تعلیل وغیرہ پر البقرہ :10 [ 2:8:1 (10)] میں بات ہوئی تھی۔ ” کَانَتْ “ کا وزن ” فَعَلْت “ اور شکل اصلی ” کَوَنَتْ “ جس میں واو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل جاتی ہے۔ فعل کا یہ صیغہ دراصل تو ماضی کا ہے مگر شرط کی وجہ سے ترجمہ حال یا مستقبل میں کیا جائے گا۔ ۔ ” لَکُمْ “ (تمہارے لیے، تمہارا) لام الجر اور ضمیر مجرور کا مرکب، یہاں ” خبر مقدم “ کے طور پر آنے کے وجہ سے ترجمہ ” تمہارے ہی لیے : تمہارا ہی “ سے ہوگا۔ ۔ ” الدارُ الاٰخِرۃُ “ (آخرت کا گھر، پچھلا گھر) یہ دراصل تو مرکب توصیفی ہے مگر اردو محاورے کی بنا پر اس کا ترجمہ مرکب اضافی کی طرح کردیا گیا ہے، اگرچہ بعض نے ” پچھلا گھر “ کے ساتھ بھی ترجمہ کیا ہے۔ اس میں لفظ ” الدار “ کا مادہ ” دور “ اور وزن اصلی (لام تعریف کے بغیر) ” فَعَلٌ“ تھا۔ اصلی شکل ” دَوَرٌ“ تھی جس میں وائو متحرکہ ماقبل مفتوح الف میں بدل کر لفظ ” دار “ بنتا ہے جس کے معنی ہیں ” گھر “۔ اس مادہ سے فعل مجرد کے باب اور معنی وغیرہ پر البقرہ :84 [ 2:52:1 (1)] میں کلمہ ” دِیار “ کے سلسلے میں بات ہوئی تھی۔ ” دار “ اسی ” دیار “ کا واحد ہے۔ دوسرے لفظ ” الاٰخرۃ “ کے مادہ، وزن اور اس سے فعل مجرد وغیرہ اور ” آخرت “ کے اصطلاحی معنی پر مکمل بحث البقرہ :4 [ 2:3:1 (5)] میں کی جاچکی ہے۔ اس لفظ کا اصلی ترجمہ تو ہے ” سب سے پیچھے آنے والی “ لفظ ” الدار “ (گھر) چونکہ عربی میں مؤنث ہے اس لیے اس کی صفت (عربی میں تو) مؤنث ہی لائی گئی ہے۔ اردو میں لفظ ” گھر “ مذکر ہے اس لیے ” الآخِرۃ “ کا ترجمہ ” الآخِر “ (مذکر) کی طرح ” پچھلا “ کیا گیا ہے۔ تاہم اکثر نے اردو محاورے کی خاطر اس ترکیب توصیفی کا ترجمہ ترکیب اضافی کی طرح ” آخرت کا گھر “ ہی کیا ہے، ورنہ اس کا ترجمہ تو ” آخری گھر “ یا ” پچھلا گھر “ ہی ہے۔ بعض نے ترجمہ ” عالم آخرت “ کرلیا ہے، جو بہرحال فارسی کی ترکیب اضافی ہی ہے۔ قرآن کریم میں یہ دونوں کلمات اس طرح ترکیب توصیفی (الدار الاخرۃ) کی شکل میں سات جگہ آئے ہیں مگر وہ جگہ مرکب اضافی (دارُ الاخرۃِ ) کی صورت میں بھی آئے ہیں جس کا لفظی ترجمہ ہی ” آخرت کا گھر “ بنتا ہے۔ ۔ ” عِندَ اللّٰہ “ (اللہ کے ہاں، خدا کے نزدیک) ” عِندَ “ پر بات [ 2:34:1 (6)] میں گزری ہے۔ ۔ ” خَالِصَۃً “ کا مادہ ” خ ل ص “ اور وزن ” فَاعِلَۃٌ“ ہے (و عبارت میں منصوب آیا ہے) ۔ اس مادہ سے فعل مجرد ” خلَص یخلُص خُلوصًا “ (نصر سے) آتا ہے اور اس کے بنیادی معنی ہیں ” الگ ہوجانا “ پھر اسی سے اس میں ” خالص اور صاف ہونا “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں، یعنی کسی چیز سے ملاوٹ وغیرہ کا الگ ہوجانا۔ ” خالِص “ اور ” صافٍی “ (صاف) دونوں عربی لفظ ہیں اور قریباً ہم معنی ہیں (اور اردو میں بھی اسی طرح استعمال ہوتے ہیں) مگر ان میں اللسان اور المفردات کے مطابق فرق یہ ہے کہ ” خالص “ اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کچھ میل ملاوٹ تھی جو الگ (دور) ہوگئی۔ جبکہ ” صافِی “ (صاف) عموماً اس چیز کو کہتے ہیں جو شروع سے ” صاف اور خالص “ تھی۔ یہ فعل (خلَص) بنیادی طور پر فعل لازم ہے، مگر مختلف صلات کے ساتھ مختلف معنی بھی دیتا ہے۔ مثلاً ” خلَص مِن…“ کے معنی ہیں ”…سے نجات پانا یا بچ جانا۔ “‘ اور ” خلَص الیٰ… یا خلص بِ…“ کا مطلب ہے ”… تک پہنچ جانا۔ “ ۔ قرآن کریم میں اس فعل مجرد سے تو صرف ایک ہی صیغہ ماضی (خلَصُوا) ایک ہی جگہ (یوسف :80) آیا ہے۔ جہاں یہ فعل بغیر صلہ کے اور اپنے بنیادی معنی (الگ ہونا) کے لیے ہی استعمال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ مزید فیہ کے ابواب افعال اور استفعال سے بھی فعل کے دوچار صیغے آئے ہیں۔ مزید برآں مجرد اور مزید فیہ سے متعدد مشتقات پچیس کے قریب مقامات پر آئے ہیں، ان سب پر حسب موقع بات ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ۔ زیر مطالعہ لفظ ” خالِصَۃ “ اس فعل مجرد سے صیغہ اسم الفاعل ہے۔ اس کے آخر پر ” ۃ “ تانیث کے لیے نہیں مبالغہ کے لیے ہے (جیسے ” راوی “ سے ” روایۃ “ بنا لیتے ہیں (یعنی ” خاص طور پر الگ “ ) اس سے بصیغہ مذکر اسم الفاعل (خالص) بھی قرآن کریم میں بھی ایک جگہ (النحل :66) آیا ہے اور یہ لفظ (خالِصَۃ) بصیغہ تانیث یا مبالغہ تو پانچ جگہ وارد ہوا ہے --- اس کے فعل مجرد کے مذکورہ معانی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس (خالصۃ) کا ترجمہ ” الگ، تنہا، خالص، بلاشرکت، خاص، مخصوص اور خاص کر “ کی شکل میں کیا گیا ہے۔ اصل لفظی ترجمہ ” خالص (الگ) ہونے والا یا والی “ کی بجائے یہ تراجم اس لیے درست ہیں کہ یہاں اسم الفاعل بمعنی صفت بھی ہے اور اردو محاورے کا بھی یہی تقاضا ہے۔ ۔ ” مِنْ دُونِ النَّاسِ “ زیر مطالعہ عبارت کا یہ آخری حصہ دراصل تو ایک مرکب جاری ہے جو تین کلمات پر مشتمل ہے۔ اس میں ” مِنْ “ تو حرف الجر ہے جو یہاں ظرف ” دُونَ “ سے پہلے آیا ہے۔ اس کا ترجمہ ” سے “ ہی ہوگا۔ تاہم اگر یہ حرف الجر نہ بھی ہوتا تو صرف ظرف (منصوب) بھی یہی معنی دیتا۔ ” دُون “ (اِدھر۔ اس طرف۔ سوا… کو چھوڑ کر) کی لغوی تشریح وغیرہ البقرہ :23 [ 2:17:1 (9)] میں گزر چکی ہے۔ ” الناس “ (لوگ، لوگوں، سب انسان) اس لفظ کے مادہ ، وزن، اشتقاق وغیرہ کی بحث البقرہ :8 [ 2:7:1 (3)] میں ہوچکی ہے۔ یوں ” من دون الناس “ کا ترجمہ بنتا ہے، ” لوگوں : کے سوا : کو چھوڑ کر “ بعض نے اسے بامحاورہ بنانے کے لیے ” الناس “ کا ترجمہ ” اور لوگوں “ سے کیا ہے جو یہاں لفظ ” دُونَ “ کا تقاضا ہے۔ کیونکہ یہاں یہ تو مراد نہیں کہ لوگوں یا انسانوں کو چھوڑ کر یہ کسی اور مخلوق کے لیے خاص ہے۔ اس لیے یہاں ” لکم “ (تمہارے ہی لیے) کی وجہ سے ترجمہ ” اور لوگوں سے “ کرنا موزوں ہے۔ اسی کو بعض نے ” دوسروں کو چھوڑ کر، دوسروں کے لیے نہیں، نہ اوروں کے لیے “ اور بعض نے ” بلا شرکت غیرے “ سے ترجمہ کیا ہے۔ یہ سب تراجم محاورہ اور مفہوم کے لحاظ سے ہی درست ہیں، ورنہ ظاہر ہے اصل عبارت سے تو ہٹ کر ہیں۔ ۔ یوں اس پوری زیر مطالعہ عبارت (قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ عند اللہ خالصۃ من دون الناس) کا لفظی ترجمہ بنتا ہے ” کہہ دے تو اگر ہے تمہارے ہی لیے آخری گھر اللہ کے ہاں خالص (الگ) لوگوں کے سوا۔ “ بعض نے ” کانت لکم “ کا ترجمہ (شاید محاورہ کی خاطر) ” تم کو ملنا ہے “ سے کیا ہے جو بلحاظ مفہوم ہی درست ہے۔ اسی طرح بعض مترجمین نے ” لکم “ اور ” خالصۃ “ دونوں کو ملا کر ترجمہ ” خاص تمہارے ہی لیے، تمہارے ہی لیے مخصوص “ کی شکل میں کیا ہے۔ بعض نے ” محض تمہارے ہی لیے نافع ہے “ سے ترجمہ کیا ہے، ظاہر ہے اس میں ” نافع ہے “ ایک تفسیری اضافہ ہے۔ بعض تراجم میں ” عند اللہ “ کا ترجمہ ہی نظر انداز ہوگیا ہے جو یقینا سہو ہی ہے۔ ” من دون الناس “ کے مختلف تراجم ابھی اوپر مذکور ہوئے ہیں۔ یہاں تک اس جملے کا ابتدائی حصہ جس میں صرف بیان شرط مکمل ہوا ہے۔ جوابِ شرط اگلی عبارت میں آرہا ہے۔ 2:58:1 (2) [ فَتَمَنَّوْا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ] ۔ نیا لفظ اس میں ” فَتَمَنَّوْا “ ہے ۔ اس کی ابتدائی ” فاء (ف) تو فاء رابطہ ہے جو جوابِ شرط کے شروع میں آتی ہے۔ باقی لفظ ” تَمَنَّوْا “ ہے (اس کی ساکن واو الجمع کو آگے ملانے کے لیے ضمہ (-ُ ) دیا گیا ہے) اس کا مادہ ” م ن ی “ اور وزن اصلی ” تَفَعَّلُوْا “ ہے۔ اس کی اصلی شکل تو ” تَمَنَّیُوْا “ تھی۔ پھر واو الجمع سے ماقبل والا حرف علت (جو یہاں ” ی “ ہے) گرا دیا جاتا ہے (یعنی ”-َیُوْا = -َوْا “ کے اصول پر) یوں یہ لفظ ” تَمَنَّوْا “ بن جاتا ہے۔ ) (نیز دیکھئے حصہ ” الاعراب “ ) ۔ اس مادہ (م ن ی) سے فعل مجرد (جو قرآن کریم میں کہیں استعمال نہیں ہوا) کے باب اور معنی وغیرہ کی بحث تو البقرہ :78 [ 2:49:1 (2)] میں کلمہ ” امانّی “ کے ضمن میں گزر چکی ہے۔ زیر مطالعہ لفظ (تَمَنَّوْا) اس مادہ سے باب تفعّل کا صیغۂ فعل امر ہے۔ اس باب سے فعل ” تَمَنَّی… یَتَمَنَّی “ کے معنی ہیں : ”…کی آرزو کرنا، تمنا کرنا “ اردو کا لفظ ” تمنا “ اسی عربی فعل کے صیغہ ماضی کی بگڑی ہوئی شکل ہے جو اردو میں اس فعل کے مصدر کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ باب تفعل کے اس فعل کا اصلی عربی مصدر ” تَمَنّیٍ “ یا ” التَمَنِّی “ بنتا ہے۔ ۔ ” التمنی “ کے اصل معنی تو ہیں : ” دل میں کسی چیز کا اندازہ کرنا اور اس کا تصور لانا “ جو محض ظن وتخمین پر مبنی بھی ہوسکتا ہے اور کسی ٹھوس بنیاد پر بھی۔ تاہم اکثر یہ بےحقیقت تصور کے لیے آتا ہے۔ اس لیے اس کے معنی میں ” آرزو کرنا “ کے علاوہ ” بات گھڑ لینا اور جھوٹ کہنا “ کے معنی بھی شامل ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں ” تمنّی الحدیث “ (اس نے حدیث یا بات گھڑ لی) ” التمنی “ کے ایک معنی ” پڑھنا، (قراءت یا تلاوت کرنا) بھی ہیں۔ اور قرآن کریم میں کم از کم ایک جگہ (الحج :52) یہ ان معنی میں بھی آیا ہے۔ تاہم اس کا زیادہ استعمال پہلے معنی (آرزو کرنا۔ تمنا کرنا) میں ہی ہوتا ہے، مثلاً کہتے ہیں ” تَمَنَّیْتُ التی “ میں نے اس چیز کی تمنا کی یعنی دل سے چاہا کہ وہ مجھے مل جائے) ۔ قرآن کریم میں اس فعل سے مختلف صیغے نو (9) جگہ آئے ہیں۔ ۔ زیر مطالعہ لفظ ” تَمَنَّوْا “ اس فعل سے فعل امر کا جمع مذکر حاضر کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے جس کا ترجمہ ہوگا : ” تم سب آرزو کرو “ اور یہی لفظ اس فعل سے صیغہ ماضی جمع مذکر غائب بھی ہوسکتا ہے۔ ” ان سب نے آرزو کی “ کے معنی میں۔ یعنی بلحاظ ساخت تو یہ صیغہ دونوں میں مشترک ہے۔ تاہم سیاق عبارت سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہاں یہ فعل امر کا صیغہ ہے (اس لفظ کے صیغہ مای اور امر کے اصل فرق کے لیے دیکھئے حصہ ” الاعراب “ ) اور اس لیے اس (فتمنوا) کا ترجمہ ” تو پھر آرزو کرو، تمنا تو کرو “ کی صورت میں ہوگا۔ اور ایسا ہی کیا گیا ہے، بلکہ بیشتر حضرات نے لفظ ” آرزو “ ہی کا انتخاب کیا ہے۔ ۔ [ المَوت ] اس لفظ کی لغوی وضاحت (مادہ، وزن فعل مجرد وغیرہ) البقرہ :19 [ 2:14:1 (12)] میں اور پھر [ 2:2:1 (2)] میں بھی کلمہ ” اموَاتًا “ کے ضمن میں بھی گزر چکی ہے۔ لفظ ” مَوت “ اردو میں بھی عام مستعمل ہے۔ اس کا الگ ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ۔ [ اِنْ کُنْتُم صٰدِقِیْنَ ] (اگر تم سچے ہو تو) ۔ بعینہٖ یہی جملہ البقرہ :23 اور 31 [ 2:17:1] اور [ 2:22:1] میں گزر چکا ہے۔ ۔ یوں اس پورے جملے (فتمنوا الموت ان کنتم صٰدقین) کا (جو دراصل سابقہ جملے کا جوابِ شرط ہے) ترجمہ بنتا ہے ” پس : تو تم آرزو کرو موت کی اگر تم ہو سچے “۔ بعض نے ” مَوْت “ کا بھی ترجمہ ” مرنے “ (کی) سے کردیا ہے جو خالص اردو لفظ ہے۔ بعض نے اردو محاورے کا خیال کرتے ہوئے ” آرزو کرو “ کی بجائے ” آرزو : تمنا کرکے دکھلا دو “ کیا ہے۔ بعض نے ابتدائی فاء (ف) کا بامحاورہ ترجمہ ” تو بھلا “ سے کیا ہے۔ بعض نے ” صٰدقین “ کا ترجمہ فعل مضارع کی شکل میں ” سچ کہتے ہو “ سے کیا ہے جسے اردو محاورے کے مطابق اور بلحاظ مفہوم ہی درست کہہ سکتے ہیں۔
Top