Al-Qurtubi - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر اور لوگوں (یعنی مسلمانوں) کے لئے نہیں اور خدا کے نزدیک تمہارے ہی لئے مخصوص ہے اگر سچے ہو تو موت کی آرزو تو کرو
آیت نمبر 94 تا 95 جب یہود نے باطل دعوے کیے تو اللہ تعالیٰ نے ان دعوؤں کو اپنی کتاب میں ان کی طرف سے بیان فرمایا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : لن تمسنا النارالا ایاماً معوددۃً (البقرہ : 80) اور انہوں نے کہا : ہرگز نہ چھوئے گی ہمیں دوزخ کی آگ بجز گنتی کے چند دن۔ وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھودًا او نصری (البقرہ :111) اور انہوں نے کہا : ہرگز داخل نہ ہوں گے جنت میں مگر جو یہودی یا نصرانی ہوں گے) اور انہوں نے کہا : نحن ابنٰٓؤا اللہ واحبآؤہ (المائدہ :18) (ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں) اللہ تعالیٰ انہیں جھوٹا ثابت کیا اور اس پر حجت لازم فرمائی۔ اور فرمایا : اے پیارے محمد ! ﷺ انہیں کہو۔ ان کا نت لکم الدار الاخرۃ۔ دار آخرت سے مراد جنت ہے یعنی اگر تمہارے لئے جنت ہے فتمنوا الموت ان کنتم صدقین۔ تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے اقوال میں سچے ہو) ۔ کیونکہ جس کا یہ اعتقاد ہو کہ وہ جنتی ہے تو اس کے نزدیک دنیوی زندگی سے موت محبوب ہوتی ہے کیونکہ اسے وہاں جنت کی نعمتیں ملیں گی اور اس سے دنیا کی تکالیف ختم ہوجائیں گی۔ پس وہ اپنے اعمال کی قباحت اور نحن ابنؤا اللہ واحباؤہ (المائدہ :18) کے قول کی وجہ سے اپنے کفر کی معرفت کی وجہ سے اور دنیا پر حرص کی وجہ سے موت کی تمنا کرنے سے رک گئے (1) ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے اپنے سچے قول کے ساتھ خبر دی ولن یتمنوہ ابدًا بما قدمت ایدیھم واللہ علیمٌ بالظلمین۔ یہ ان کے جھوٹ کی تحقیق کے طور پر فرمایا اگر وہ تمنا کرتے تو مر جاتے اور اپنا ٹھکانا دوزخ میں دیکھ لیتے۔ بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے انہیں تمنا کے اظہار سے پھیر دیا اور اس سے روک دیا تاکہ نبی کریم ﷺ کے لئے معجزہ بن جائے۔ یہ تین وجوہ تھیں ان کے تمنا کو ترک کرنے کی۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس سے فتمنوا الموت کے تحت روایت کیا ہے کہ مراد یہ ہے کہ ہم میں سے اور تم میں سے ایک فریق کے جھوٹا ہونے پر موت کی دعا تو کرو (2) ۔ تو انہوں نے دعا نہ کی کیونکہ انہیں اپنے جھوٹا ہونے کا علم تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : تمنا کبھی زبان سے ہوتی ہے اور کبھی دل سے ہوتی ہے پھر یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ انہوں نے دل سے تمنا نہیں کی تھی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے متعلق قرآن نے کہہ دیا ولن یتمنوہ ابدًا وہ ہرگز تمنا نہیں کریں گے۔ اگر وہ دلوں کے ساتھ تمنا کرتے تو اسے اپنی زبانوں سے ظاہر کرتے تاکہ نبی کریم ﷺ کی بات کو رد کردیں اور آپ ﷺ کی حجت کو باطل کردیں۔ یہ بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : خالصۃٌ۔ اس کی نصب کان کی خبر کی بنا پر ہے۔ اگر تو چاہے تو اسے حال بنا دے۔ اور عند اللہ خبر ہو۔ ابدًا ظرف زمان ہے قلیل اور کثیر پر واقع ہوتا ہے جیسے حین اور وقت قلیل اور کثیر کے لئے استعمال ہوتے ہیں، عمر کی ابتدا سے موت تک کی مدت یہاں مراد ہے۔ بما میں ما بمعنی الذی ہے اور عائد محذوف ہے۔ تقدیر عبارت ہے : قدمتہ، اور ما مصدریہ ہو تو عائد کی ضرورت نہیں ہے ایدیھم محل رفع میں ہے یا سے ضمہ حذف کیا گیا ہے کسرہ کے ساتھ اس کے ثقل کی وجہ سے۔ اگر یہ محل نصب میں ہو تو تو اسے نصب دے گا کیونکہ نصب خفیف ہے اور شعر میں ساکن کرنا بھی جائز ہے۔ واللہ علیمٌ بالظلمین یہ مبتدا خبر ہیں۔
Top