Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
ان سے کہیے کہ اگر آخرت کا گھر اللہ کے نزدیک صرف تمہارے ہی لیے ہے دوسرے لوگوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں تو آؤ موت کی آرزو کرو (مباہلہ کے لیے آگے بڑھو) اگر تم اس اعتقاد میں سچے ہو
بنی اسرائیل اپنی ساری بد اعتدالیوں کے باوجود آخرت کی کامیابی بھی اپنا حق سمجھتے تھے : 182: آیت 93 تک بنی اسرائیل کی دنیاوی زندگی ، ان کے روز مرہ کے کارناموں اور ان کے عقائد اور اخلاق پر بحث ہوئی۔ اب بیان ہوتا ہے کہ باوجود ان ناشائستہ حرکتوں کے اپنی نجات کے متعلق انہوں نے کیا کیا منصوبے باندھ رکھے تھے اور پھر صرف خالی منصوبے ہی نہیں تھے بلکہ اس بنیادی عقیدہ کا ابتدائی خاکہ تورات کے اندر انہوں نے داخل کردیا تھا چناچہ تورات میں ہے کہ ” تم خداوند اپنے خدا کیلئے مقدس قوم ہو اور خداوند نے تجھ کو چن لیا ، تاکہ سب قوموں کی بہ نسبت جو زمین پر ہیں تو اس کے لئے ایک خاص قوم ہو۔ “ (استثناء 14 : 2) ” تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو۔ “ ( استثناء 4 : 1) رفتہ رفتہ یہ عقیدہ ترقی کر کے اس درجہ تک پہنچ گیا کہ یہود اپنے سوا کسی اور کو جنت کا مستحق ہی نہ سمجھتے تھے اور نجات اخروی کو اپنا مخصوص حق سمجھنے لگے تھے۔ اپنے کو اللہ کا محبوب اور اس کا لاڈلا اور چہیتا فرزند قرار دینے لگے تھے ، اور خیال یہ جما لیا تھا کہ خداوند کا جو معاملہ ہماری قوم و نسل کے ساتھ ایک ناقابل تبدیل طور پر ہے وہ دنیا جہاں میں کسی اور کے ساتھ نہیں۔ اندازہ کیجئے کہ دولت کو امام بنانا تورات کی دعوت پر ” سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا “ کہنا اور انبیاء کرام کو قتل کرنا اور اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ بھی رکھنا کہ : ” لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰى1ؕ “ (البقرہ 2 : 111) کہ جنت کے داخلہ کے لئے ضروری ہے کہ یہودی بنو یا عیسائی ورنہ جنت میں تم داخل ہو ہی نہیں سکتے ، اور یہ بات بھی انہوں نے محض اس لئے کہی ہے کہ ان کو مسلمانوں کا مقابلہ ہے اس لئے وہ نصاریٰ کو ساتھ ملا رہے ہیں ورنہ وہ نصاریٰ کو کیوں ساتھ ملاتے اس لئے کہ جب تک اسلام کا مقابلہ ان کو درپیش نہ تھا وہ برملا کہتے تھے کہ ” عیسائیوں کا کوئی دین و مذہب نہیں ہے “ اور علاوہ اذیں بھی وہ بہت کچھ کہتے تھے۔ دعوت مباہلہ کا چیلنج : 183: ان کے اس دعویٰ سے جو معلوم ہوتا ہے وہ اللہ کے محبوب اور برگزیدہ ہیں باوجود اس کے کہ ان کے اعمال ان کے اس دعویٰ کی تردید کرتے ہیں تاہم اے پیغمبر اسلام ! ان کو کہو کہ اگر وہ اپنے دعویٰ محبت میں سچے ہیں تو اللہ کے نام پر مرنے کے لئے تیار ہوجائیں جس کو اپنے محبوب کی طلب ہوگی آخر وہ اپنے محبوب کے پاس جانے سے کیوں ہچکچائے گا۔ دوسری جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے کہ : قُلْ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ ہَادُوْۤا اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّكُمْ اَوْلِیَآءُ ؟ لِلّٰهِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ 006 (الجمعہ 62 : 6) ” اے پیغمبر اسلام ! یہود سے کہہ دو کہ اگر تمہیں اس بات کا دعویٰ ہے کہ تمام بندوں میں سے صرف تم ہی اللہ کے بندے اور دوست ہو تو اس کی آزمائش یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں موت کی آرزو کرو اگر تم سچے ہو تو ضرور ایسا کرو گے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اعلان بھی کردیا کہ : وَ لَا یَتَمَنَّوْنَهٗۤ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ 1ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ 007 (الجمعہ 62 : 7) ” اور یہ اللہ اور اس کی صداقت کا جھوٹا دَم بھرنے والے کبھی موت کی تمنا کرنے والے نہیں کیونکہ انہوں نے ایسے کام کئے ہیں جو انہیں موت کے تصور سے ڈراتے ہیں۔ “ ان یہود کو رسول اللہ ﷺ کی زبان اقدس سے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر تم سچے ہو تو مقابلہ میں آؤ ہم تم مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہم میں سے جھوٹے کو ہلاک کر دے لیکن ساتھ ہی چیلنج بھی کردیا کہ یہود اس کے لئے کبھی تیار نہ ہوں گے اور وقت نے یہ بات ثابت کردی کہ فی الواقعہ یہود تیار نہ ہوئے گویا یہ زندہ جاوید معجزہ ثابت ہوگیا اور آج بھی تاریخ اس بات کی شاہد و گواہ ہے۔
Top