Al-Quran-al-Kareem - Ash-Shu'araa : 44
فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَ عِصِیَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ
فَاَلْقَوْا : پس انہوں نے ڈالیں حِبَالَهُمْ : اپنی رسیاں وَعِصِيَّهُمْ : اور اپنی لاٹھیاں وَقَالُوْا : اور بولے وہ بِعِزَّةِ : اقبال کی قسم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّا لَنَحْنُ : بیشک البتہ ہم الْغٰلِبُوْنَ : غالب آنے والے
تو انھوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور انھوں نے کہا فرعون کی عزت کی قسم ! بیشک ہم، یقینا ہم ہی غالب آنے والے ہیں۔
وَقَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ۔۔ : فرعون کی تعظیم کے لیے اس کی عزت کی قسم کھائی کہ ہم ضرور ہی جیتیں گے۔ اس سے جادوگروں کا مقصد فرعون کو خوش اور موسیٰ ؑ کو مرعوب کرنا تھا۔ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی قسمیں کھایا کرتے تھے، اسلام میں اس سے منع کردیا گیا۔ عبداللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (أَلاَ إِنَّ اللّٰہَ یَنْھَاکُمْ أَنْ تَحْلِفُوْا بآبَاءِکُمْ مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ باللّٰہِ أَوْ لِیَصْمُتْ) [ بخاری، الأیمان والنذور، باب لا تحلفوا بآبائکم : 6646 ] ”خبر دار ! اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جسے قسم کھانی ہو وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔“ اس کے باوجود آج کل بعض مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کی ذات یا صفات کی قسم کھانے پر مطمئن نہیں ہوتے، بلکہ اپنے پیر و مرشد یا کسی بزرگ کی قبر کی قسم کھاتے ہیں، یا عام رواج کے مطابق کہہ دیتے ہیں مجھے تیری قسم یا تیرے سر کی قسم وغیرہ، اس طرح وہ دوسروں کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں، تو جس طرح اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھانا گناہ ہے مخلوق کی سچی قسم کھانا اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے۔
Top