Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 44
فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَ عِصِیَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ
فَاَلْقَوْا : پس انہوں نے ڈالیں حِبَالَهُمْ : اپنی رسیاں وَعِصِيَّهُمْ : اور اپنی لاٹھیاں وَقَالُوْا : اور بولے وہ بِعِزَّةِ : اقبال کی قسم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّا لَنَحْنُ : بیشک البتہ ہم الْغٰلِبُوْنَ : غالب آنے والے
پس انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں اور کہا فرعون کی عزت کی قسم بلاشبہ ہم غالب رہیں گے
انہوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں : 44۔ سحر اور ساحر کا مفہوم ہم نے اوپر بیان کردیا ہے البیان السحر سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے چونکہ فریقین اپنے اپنے دلائل کو مسکت خیال کرتے ہیں اور انسان کا خاصہ بھی ہے کہ وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے ایک بار ایڑی چوٹی کا زور خرچ کرتا ہے یہی ان مذہبی پیشواؤں کو بھی کرنا تھا اور یہی انہوں نے کیا اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تقریر سن کر بعض ان میں سے دل ہار بیٹھے تھے لیکن قدرت الہی کی طرف سے ابھی وہ وقت نہیں آیا تھا کہ وہ اس کا برملا اظہار کردیتے اس لئے وہ اپنے عزم کے مطابق میدان میں آئے اور آتے ہی انہوں نے حسب عادت فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہا کہ ہم یقینا غالب آئیں گے اور ان کو یہ بات بھی معلوم تھی کہ طاقت کا سرچشمہ ان کے ساتھ ہے بلکہ وہ اس سے سیراب شدہ ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) ایک پٹی ہوئی قوم کا فرد ہے وہ ہمارا کیا بگاڑ لے گا لہذا پورے وثوق کے ساتھ وہ جو کچھ اکٹھا کر کے لائے تھے اس کو انہوں نے بیک وقت میدان میں لاڈالا تھا تاکہ سب کی آنکھیں دیکھ لیں اور کان سن لیں ، تفصیل اس کی سورة طہ آیت 66 تا 69 میں ملے گی ۔
Top