Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 44
فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَ عِصِیَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ
فَاَلْقَوْا : پس انہوں نے ڈالیں حِبَالَهُمْ : اپنی رسیاں وَعِصِيَّهُمْ : اور اپنی لاٹھیاں وَقَالُوْا : اور بولے وہ بِعِزَّةِ : اقبال کی قسم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّا لَنَحْنُ : بیشک البتہ ہم الْغٰلِبُوْنَ : غالب آنے والے
سو انہوں نے ڈالیں اپنی رسیاں اور اپنی لاٹھیاں،37۔ اور کہنے لگے کہ فرعون کے اقبال کی قسم،38۔ غالب یقیناً ہم ہی رہیں گے
37۔ (اور وہ سحر کے اثر سے سب کو سانپ دکھائی دینے لگیں) مصری عقائد میں سانپ کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ (آیت) ” قال ...... القو “۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے قول سے کیا یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ سحر کی اجازت دے رہے تھے ؟ سحر ایسی معصیت ہے جو محض فسق ہی نہیں، بلکہ اس کے ڈانڈے کفر سے ملے ہوئے ہیں۔ تو کیا پیغمبر اپنی رضاء کفر یاتقریبا کفر کو دے رہے تھے ؟ صاحب روح المعانی کہتے ہیں کہ اس میں بظاہر امر ہے سحر کرنے کا، لیکن در حقیقت آپ نے انہیں اس عمل کا حکم دیا، جو آپ کو الہام یا فراست یا قرائن سے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ کرکے رہیں گے۔ مقصود آپ کا رد تھا اس سحر کا اور خود وہ رد موقوف تھا سحر کے اظہار پر۔ بالکل ایسی ہی بات۔ جیسے زندیق سے کہا جائے کہ اپنے دعوی باطل پر دلیل قائم کر، اور مقصود اس دلیل کا ابطال ہو۔ امام رازی (رح) نے لکھا ہے کہ شبہ کے مٹانے کے لیے جب یہی صورت تھی تو یہ امر جائز ہوگیا تھا۔ لما تعین ذلک طریقا الی کشف الشبھۃ صار جائزا (کبیر) عارف تھانوی (رح) نے یہاں سے یہ مسئلہ پیدا کیا ہے کہ بعض مشائخ سے جو کھلے ہوئے منکرات پر چشم پوشی منقول ہے۔ اس کی تہ میں کوئی مصلحت دینی ہی ہوتی ہے جو اس وقت خفی ہوتی ہے، اور بعد واضح ہوجاتی ہے۔ 38۔ (آیت) ” بعزۃ فرعون “۔ ایسا ہی فقرہ ہے جیسا کہ آج میلوں ٹھیلوں، کانگرسوں وغیرہ کے موقع پر ” بھارت ماتا کی جے “” سری رامچندر کی جے “ وغیرہ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
Top