Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 44
فَاَلْقَوْا حِبَالَهُمْ وَ عِصِیَّهُمْ وَ قَالُوْا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ اِنَّا لَنَحْنُ الْغٰلِبُوْنَ
فَاَلْقَوْا : پس انہوں نے ڈالیں حِبَالَهُمْ : اپنی رسیاں وَعِصِيَّهُمْ : اور اپنی لاٹھیاں وَقَالُوْا : اور بولے وہ بِعِزَّةِ : اقبال کی قسم فِرْعَوْنَ : فرعون اِنَّا لَنَحْنُ : بیشک البتہ ہم الْغٰلِبُوْنَ : غالب آنے والے
اس پر انہوں نے پھینک دیں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں اور بولے فرعون کے اقبال کی قسم ہم ہی نے بہرحال غالب آکر رہنا ہے
29 جادوگروں کی اپنے غلبے کے لیے ایک مشرکانہ قسم : سو جادوگروں نے فرعون کے اقبال کی قسم کھا کر کہا کہ " یقینا ہم ہی غالب رہیں گے "۔ کیونکہ فرعون ان لوگوں کے یہاں دیوتا کی حیثیت رکھتا تھا۔ سو یہ ہے مشرکوں کا طرہ امتیاز۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے کہ میدان میں اترتے وقت وہ اللہ کی بجائے اس کی کسی مخلوق ہی میں سے کسی کا سہارا لیں گے اور اس کا نام لیں گے۔ سو ان جادوگروں نے فرعون کی عزت اور اس کے اقبال کا نعرہ لگایا تو آج کا کلمہ گو مشرک " یا علی مدد "، " علی مشکل کشا "، " یا غوث دستگیر " وغیرہ کے نعرے لگاتا ہے۔ اور بدعتی ملاں اور مشرک پیر اس کی پیٹھ ٹھونکتا ہے کہ یہ سب ٹھیک ہے۔ اور یہ غیر اللہ سے مدد مانگنا نہیں کیونکہ خاصان خدا، خدا کے غیر نہیں ہوتے۔ مگر جب اہل توحید کی طرف سے پوچھا جاتا ہے کہ غیر کیوں نہیں ؟ جبکہ وہ خالق ہے اور یہ مخلوق ؟ تو ان مشرکوں سے آئیں بائیں شائیں کے سوا کوئی جواب نہیں بن پڑتا۔ اور یہ لوگ اتنی موٹی بات بھی نہیں سوچتے کہ جو خود موت کے گھاٹ اتر گئے وہ دوسروں کے حاجت روا اور مشکل کشا کس طرح ہوسکتے ہیں ؟ بہرکیف وہ لوگ چونکہ فرعون کو دیوتا بلکہ مہا دیوتا اور سورج دیوتا سمجھتے اور مانتے تھے اس لیے انہوں نے اس کے اقبال کی قسم کھائی اور یہی حال ہمیشہ رہا ہے مشرکوں کا ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو انہوں نے قسم کھا کر کہا کہ فرعون کے اقبال کی قسم غلبہ یقینا ہمارا ہی ہوگا۔
Top