Al-Quran-al-Kareem - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
بیشک وہ لوگ جو تجھے دیواروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں ان کے اکثر نہیں سمجھتے۔
(1) ان الذین ینادونک من ورآء الحجرت :”حجرۃ“ زمین کا وہ قطعہ جس کے گرد دیوار بنی ہوئی ہو، گھر کے صحن کی چار دیواری۔ طبری نے فرمایا :”حجرۃ“ کی جمع ”حجر“ ہے اور اس کی جمع ”حجرات“ ہے۔“ روح المعانی میں ان حجرات کی کیفیت بیان کی گئی ہے :”یہ نو حجرے تھے، ہر بیوی کے پاس ایک حجرہ تھا اور جیسا کہ ابن سعد نے عطاء خراسانی سے روایت کی ہے، یہ کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، ان کے دروازوں پر سیاہ بالوں کے ٹاٹ کے پردے تھے۔ بخاری نے ”الادب المفرد“ میں اور ابن ابی الدنیا اور بیہقی نے داؤد بن قیس سے بیان کیا ہے، انہوں نے فرمایا :”میں نے وہ حجرے دیکھے ہیں، کھجور کی ٹہنیوں سے بنے ہوئے تھے، جنہیں باہر کی جانب سے بالوں کے ٹاٹوں سے ڈھانپا ہوا تھا اور میرا گمان ہے کہ صحن کے دروازے سے کمرے کے دروازے تک چھ یا سات ہاتھ (نو یا ساڑھے دس فٹ) کا فاصلہ تھا اور کمرے کا اندرونی حصہ دس ہاتھ (پندرہ فٹ) تھا اور میرا گمان ہے کہ گھر کی چوڑائی سات آٹھ ہاتھ (ساڑھے دس بارہ فٹ) کے درمیان تھی۔“ اور حسن سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :”میں عثمان بن عفان ؓ کی خلافت میں نبی ﷺ کی بیویوں کے کمروں میں جایا کرتا تھا تو ان کی چھت کو ہاتھ لگا لیتا تھا۔ ولید بن عبدالملک ؒ کے عہد میں ان کے حکم سے ان گھروں کو مسجد نبوی میں شامل کرلیا گیا جس پر لوگ بہت روئے۔“ اورس عید بن مسیب نے فرمایا :”اللہ کی قسم ! مجھے پسند تھا کہ ان حجروں کو ان کی حالت پر رہنے دیا جاتا، تاکہ اہل مدینہ کے بچے بڑے ہوتے اور تمام دنیا سے آنے والے آتے تو دیکھتے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی زندگی میں کیسے گھروں پر اکتفا کیا ہے۔ اس سے ان کے دلوں میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی حرص اور اس پر فخر کے بجائے زہد اور دنیا سے بےرغبتی پیدا ہوتی ہے۔“ اور ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے بھی ایسی ہی بات فرمائی۔“ (روح المعانی) گزشتہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں آپ کے ادب کا بیان تھا، ان آیات میں اس وقت آپ ﷺ کے ادب کو ملحوظ رکھنے کا بیان ہے جب آپ گھر میں ہوں۔ آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ کچھ اعرابی لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے گھروں کی چار دیواری کے باہر کھڑے ہو کر آپ کو بلانے کے لئے آوازیں دیں، تو اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو ”لایعقلون“ قرار دیا۔”لایعقلون“ قرار دینے سے مقصود انہیں ڈانٹنا اور تمام مسلمانوں کو آپ کے ادب کی تعلیم دینا ہے۔ (2) اکثرھم لایعقلون : ابن جزی (صاحب التسہیل) نے فرمایا :”اس میں دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ ان میں کچھ لوگ عقل رکھنے والے بھی تھے، اس لئے ان کے اکثر کو ”لایعقلون“ فرمایا، سب کو نہیں۔ دوسری یہ کہ مراد سب ہی کو ”لایعقلون“ قرار دینا ہے، عقل والوں کو کم قرار دینے سے مراد ان کی نفی ہے۔ الفاظ کے مطابق پہلی وجہ زیادہ ظاہر ہے، دوسری میں زیادہ بلیغ طریقے سے سب کی مذمت کا بیان ہے۔“
Top