Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ
: بیشک جو لوگ
يُنَادُوْنَكَ
: آپ کو پکارتے ہیں
مِنْ وَّرَآءِ
: باہر سے
الْحُجُرٰتِ
: حجروں
اَكْثَرُهُمْ
: ان میں سے اکثر
لَا يَعْقِلُوْنَ
: عقل نہیں رکھتے
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
تنبیہ وتہدید بر بےتمیزی وبیحرمتی دربارگاہ رسالت وتلقین آداب تعظیم و اطاعت : (ربط) گذشتہ آیات میں ان حقوق وآداب کا ذکر تھا جو رسول ﷺ کی ذات اقدس کے لیے امت پر عائد اور فرض ہیں اور ان حقوق میں کوتاہی پر وعید وتنبیہ تھی اور یہ کہ یہ ایسی خطرناک تقصیر وغلطی ہے کہ مسلمان سرمایہ اعمال سے ہی محروم ہوسکتا ہے، جو اس نے اپنی زندگی میں کمایا تو اب ان آیات میں بعض ایسی گستاخیوں اور بےتمیزیوں کا ذکر فرمایا جارہا ہے جو جہلاء اور کم عقل لوگوں سے پیش آتی تھیں اور اس پر تنبیہ کی گئی اور یہ بتایا جارہا ہے کہ پیغمبر خدا ﷺ کو مخاطب بنانے اور آپ ﷺ کی مجلس میں حاضر ہو کر بات کرنے کا کیا طریقہ ہے ادب اور تعظیم و توقیر اختیار کرنا چاہئے ارشاد فرمایا۔ جو لوگ آپ ﷺ کو اے ہمارے پیغمبر پکارتے ہیں حجروں کے پیچھے سے وہ اکثر عقل نہیں رکھتے ان کو چاہئے تھا کہ اس طرح بےتمیزی کا مظاہرہ نہ کرتے کہ حجروں کے پیچھے ہی سے یا محمد، یا محمد، یا، یا رسول اللہ یا رسول اللہ کہہ کر پکارنے لگیں، ان کو تو متانت اور ادب کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے تھا اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ ان کی طرف نکل کر باہر آجاتے اور اس وقت آپ ﷺ سے تخاطب شروع کرتے تو بہتر تھا ان کے حق میں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے اس وجہ سے جو بات بےعقلی یا نادانستگی سے سرزد ہوئی اللہ تعالیٰ اس سے درگزر اور اس کو معاف فرمائے گا۔ صبروتحمل اور متانت انسان میں وہ وصف ہے کہ اس کی بدولت بہت سی برائیوں سے محفوظ رہتا ہے اور معاملات ومعاشرت میں باہمی اخوت و ہمدردی کی فضا قائم ہوتی ہے اس لیے یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اے ایمان والو ! جب تمہارے پاس کوئی فاسق وفاجر آدمی کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کرلو کہیں ایسا نہ ہو تم جا پڑو کسی قوم پر نادانی اور صحیح حقیقت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پھر تم اپنے کئے پر پچھتانے لگو کیونکہ بسا اوقات انسان کسی غلط خبر پر جذبات میں آکر کسی کے مقابلہ میں غلط قدم اٹھا لیتا ہے پھر جب حقیقت سامنے آتی ہے تو اپنی نادانی اور حماقت پر پچھتانا پڑتا ہے اور ظاہر ہے اس طرح کی باتوں سے مسلمان قوم کی اجتماعی اور انفرادی زندگی مختلف اقسام کی خرابیوں میں پڑجائے گی ہر فتنہ اور شر سے تحفظ کے لیے خدا نے اپنا پیغمبر تمام عالم کے واسطے ہادی اور رحمت بنا کر مبعوث فرما دیا ہے تو پیغمبر خدا کی ہدایت و ارشاد کو لائحہ عمل بنانا چاہئے اور ایمان والو ! یہ بھی جان لو کہ تمہارے درمیان اللہ کا رسول ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ رسول ﷺ ہی کی اتباع وپیروی کریں یہ روش ہرگز اختیار نہ کریں کہ اللہ کے پیغمبر کو اپنی مرضیات اور جذبات کے تابع کریں یا رسول خدا کی ہدایات وتعلیمات کو اپنی اغراض و خواہشات کے مطابق بنانے کی کوشش کریں اگر اللہ کا رسول تمہاری موافقت کرنے لگے تمہاری بہت سی باتوں میں تو یقیناً تم بڑی ہی مشقت میں پڑجاؤ گے اور بالفرض اگر ایسی صورت واقع ہوجائے کہ تم اللہ کے رسول اور اس کی ہدایات وتعلیمات کو اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق بنانے لگو تو بلاشبہ تم ہلاکت وتباہی میں پڑجاؤ گے مگر اے ایمان والو اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور اسکو تمہارے قلوب میں رچا دیا ہے اور نفرت ڈال دی تمہارے دلوں میں کفر کی اور گناہ ونافرمانی کی تو اسکی بدولت اے اہل ایمان تم اپنی خواہشات اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے سامنے قربان کردیتے ہو جو ایمان کا رنگ اور ایمان کا تقاضا ہے اور تم اسی ایمانی جذبہ اور معرفت کے باعث اس حقیقت کو سمجھ گئے ہو (آیت ) ” ولو اتبع الحق اھوآءھم لفسدت السموت والارض ومن فیھن “۔ کہ اگر حق اور وحی الہی ان لوگوں کی خواہشات کی موافقت کرنے لگے تو آسمان و زمین اور جو کچھ ان میں ہے سب تباہ وبرباد ہوجائیں گے تو اس حقیقت کو سمجھ لینے والے ہی وہ لوگ ہیں جو فلاح ورشد کے سیدھے راستے پر چلنے والے ہیں اور ایسے سعادت مند لوگوں کا راہ راست پر چلنا فضلیت و کرامت ہے اللہ کی طرف سے اور انعام ہے اسی کا اور اللہ تعالیٰ خوب جاننے والا حکیم ہے تو اپنے عمل و حکمت سے جس کے واسطے چاہتا ہے رشد وہدایت مقدر فرماتا ہے اور جس کسی کو چاہتا ہے اپنے فضل وانعام سے نوازتا ہے۔ قبیلہ بنوتمیم کا گستاخانہ طرز اور ان کو تنبیہ ونصیحت : روایات میں ہے کہ ایک دفعہ بنو تمیم کے کچھ لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے، آنحضرت ﷺ حجرہ مبارک میں تشریف رکھتے تھے وہ حجرہ کی دیواروں کے پیچھے ہی سے پکارنے لگے ،” یا محمد “ اور ایک روایت میں یا رسول اللہ اخرج الینا۔ کہنے لگے کہ اے محمد ﷺ باہر آئیے بلاشبہ یہ ان کی بےعقلی اور بےتمیزی تھی ان کو حضور ﷺ کے مرتبہ کا لحاظ کرنا چاہئے تھا اور یہ بھی سوچنا چاہئے تھا کہ ممکن ہے کہ اس وقت آپ ﷺ پر اللہ کی وحی اتر رہی ہو یا کسی اہم کام میں مشغول ہوں آپ ﷺ پر تو امت کے تمام امور کی ذمہ داری تھی اور آپ ﷺ کی ذات اقدس ان کے دنیوی ودینی امور کا مرکز اور ملجاء تھی آپ ﷺ تو ہر لمحہ ذہنی اور فکری مشغولیت کے علاوہ اپنے دیگر معمولات میں منہمک ومصروف رہتے تھے، پھر یہ طریقہ بےادبی کا بھی ہے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ صبر کیا جائے اور جب آپ ﷺ باہر تشریف لائیں تو اس وقت اپنامدعا پیش کیا جائے اس ادب اور رسول خدا ﷺ کی تعظیم و توقیر کی تعلیم کے ساتھ یہ فرمادیا گیا کہ جو غلطی اور تقصیر نادانستگی سے پیش آئی اللہ اس کو معاف فرمانے والا ہے اس وجہ سے یہ چاہئے کہ اپنی تقصیر پر نادم ہوں اور آئندہ پھر کبھی ایسی چیز کا ارتکاب نہ کریں۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی (رح) اپنے فوائد میں فرماتے ہیں۔ ” حضور ﷺ کی تعظیم و محبت ہی وہ نقطہ ہے جس پر مسلم قوم تمام پر اگندہ قوتیں اور منتشر جذبات جمع ہوتے ہیں اور یہ ہی وہ ایمانی رشتہ ہے جس پر اسلامی اخوت کا نظام قائم ہے “ اس آیت مبارکہ میں جس ادب اور تعظیم اور توقیر کی دی گئی تاریخ سے ملحوظ رکھا کرتے تھے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب میں کسی بزرگ صحابی سے کوئی حدیث دریافت کرنے جایا کرتا تو انکے مکان پر پہنچ کر آواز یا دستک دینے سے پرہیز کرتا اور دروازے کے باہر بیٹھ جاتا کہ جب وہ خود ہی باہر تشریف لائیں گے تو اپنا مدعی عرض کردوں گا وہ جب باہرتشریف لائے اور مجھے دیکھتے تو فرماتے اے ابن عم رسول اللہ ﷺ آپ جب آئے تو آپ نے دروازہ پر دستک دے کر اطلاع کیوں نہ کردی فرمایا حق تعالیٰ نے پیغمبر کے پاس آنے والوں کو یہ ادب سکھایا ہے، (آیت ) ” ولوانھم صبروا حتی تخرج الیھم “۔ تو میں نے یہ چاہا کہ جس سے میں اس پیغمبر ﷺ کا علم حاصل کررہا ہوں اسکا بھی اسی طرح ادب کروں۔ 1 حاشیہ (روح المعانی۔ 12) اعتبارروایت کا قرآنی ضابطہ : آیت مبارکہ ” ان جآء کم فاسق بنبا “۔ سے محدثین واصولیین نے نقل حدیث وروایت میں ثقہ اور قابل اعتماد راوی ہونا شرط قرار دیا ہے اور یہ کہ راوی میں اور مخبر میں ایسے اوصاف ہونے چاہئیں جن کے باعث اسکو ثقہ، عادل و متقی کہا جاسکے اس لئے کہ قرآن کریم نے فاسق شخص کی خبر کو ناقابل قبول فرمایا ہے۔ کیونکہ جان ومال اور عزت وآبروکا تحفظ اسی میں ہے کہ صداقت ودیانت کے تقاضے، نقل روایات اور بیان واقعات میں پورے کئے جائیں ورنہ تو فتنہ، فساد کا راستہ کھل جائے گا۔ حضرات مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید ؓ بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن کو آنحضرت ﷺ نے قبیلہ بنو المصطلق کے صدقات وزکوۃ وصول کرنے کیلئے بھیجا تھا امام احمد (رح) نے حارث ؓ بن ابی ضرار الخزاعی کا واقعہ بیان کیا وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے مجھے اسلام کی دعوت دی میں نے اللہ کی توفیق سے اسلام قبول کرلیا اور احکام اسلام اور ارکان دین کی پابندی کا عہد کیا اور ساتھ ہی میں نے آنحضرت ﷺ سے یہ بھی عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ میں اپنی قوم کی طرف واپس جاتا ہوں اور انکو اسلام کی دعوت دوں گا اور احکام اسلام کی پابندی پر آمادہ کروں گا اور ان کے مالوں کی زکوٰۃ بھی وصول کرکے جمع کروں گا آپ ﷺ فلاں وقت اپنا قاصد بھیج دیجئے تاکہ وہ جمع کردہ زکوٰۃ میں آپ ﷺ کے پاس بھیج دوں جو یہاں فقراء مسلمین پر خرچ ہوسکے حارث ؓ نے یہاں آکر اپنی قوم کی زکوٰۃ جمع کی اور انتظار کیا کہ وقت مقررہ پر آنحضرت ﷺ کا قاصد آئے گا طے کردہ وقت پر آنحضرت ﷺ کا قصد نہ پہنچنے سے حارث ؓ بہت پریشان ہوئے اور دل میں خطرہ گزرا کہیں ایسا تو نہیں کہ آنحضرت ﷺ ناراض ہوگئے ہوں (کسی بات پر) اور اس وجہ سے قاصد نہیں بھیجا، اس خیال و پریشانی پر اپنی قوم کے سرداوں کو جمع کیا اور مشورہ کیا کہ ایسی صورت میں ہم کیا کریں اور یہ بھی رائے دی کہ اگر ایسی صورت ہو کہ کسی بات پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے کوئی ناراضگی ہوئی ہے تو ہم سب کو مل کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہئے، ادھر قصہ یہ پیش آیا کہ آنحضرت ﷺ نے ولید ؓ بن عقبہ کو حارث ؓ کی طرف روانہ کیا تاکہ زکوٰۃ وصول کرکے لے آئے لیکن ولید ؓ جب روانہ ہوئے تو راستہ میں کچھ خائف ہوئے اور درمیان راستہ ہی سے واپس ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ سے آکر یہ بیان کیا یارسول اللہ ﷺ حارث ؓ نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور میرے قتل کا ارادہ کیا (اس وجہ سے میں واپس آگیا ہوں) یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کو بہت ناگواری ہوئی اور ایک جماعت کو حکم دیا کہ وہ حارث ؓ کی طرف راونہ ہوجائے بعض روایات میں ہے کہ اس جماعت میں خالد بن ولید ؓ بھی تھے حارث ؓ انتظار میں تھے کہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی قاصد آئے تو ان کو جب معلوم ہوا کہ ایک جماعت مدینہ سے آرہی ہے تو استقبال کے لئے اپنی بستی سے باہر آئے اور ان لوگوں سے ملے تو وہ لوگ ان پر لپکے حارث ؓ نے ان سے پوچھا آپ لوگ کس پر حملہ کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا تم پر ہی تو حملہ کرنے ہمیں بھیجا گیا ہے پوچھا کس وجہ سے ؟ ان لوگوں نے جواب دیا آنحضرت ﷺ نے تمہارے پاس ولید ؓ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو تم نے زکوٰۃ ادا کرنے سے بھی انکار کیا اور ولید کو قتل کرنے کا بھی ارادہ کیا حارث ؓ نے جواب دیا قسم ہے اس ذات کی جس نے حق دے کر محمد رسول اللہ ﷺ کو بھیجا نہ ولید ؓ میرے پاس آیا اور نہ میں نے اسکو دیکھا اس کے بعد حارث خود آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے یہی سوال کیا اے حارث تم نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور میرے قاصد کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کیا حارث نے بےقرار ہوکرعرض کیا یارسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ ﷺ کو حق دے کر مبعوث فرمایا میں نے تو ولید کو دیکھا بھی نہیں اور میں آپ ﷺ کی طرف اس وقت روانہ ہوا جب کہ میں آپ کے قاصد کا منتظر رہا اور قاصد کے نہ پہنچنے سے مجھے اندیشہ ہوا کہ حضور ﷺ ناراض تو نہیں ہیں تو صورت حال معلوم کرنے کے ارادہ سے میں روانہ ہوا تھا اور اس طرح خدمت میں حاضری ہوئی، حضرات مفسرین بیان کرتے اس واقعہ پر حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ، بعض روایات سے یہ معلوم ہوا کہ ولید بن عقبہ کی بنو المصطلق کے ساتھ قدیم زمانہ سے دشمنی تھی تو اس وجہ سے ان کو ڈر ہوا کہ وہ لوگ اس قدیم دشمنی کی بناء پر مجھے قتل کردیں گے محض اس وہم کے باعث واپس لوٹ گئے اور یہ لغزش ہوئی کہ اس طرح کی بات خلاف واقعہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کی، روایات کے تتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صحابی صحیح الاسلام تھے یہ عمل اور یہ صورت حال ان کے نفاق کی وجہ سے نہیں پیش آئی اور ساتھ ہی یہ امر بھی متعین ہے کہ اس آیت کا نزول ولید بن عقبہ ہی کے بارے میں ہوا ہے جیسا کہ صحیح روایات میں ہے تو اس صورت میں لفظ ” فاسق “ کا اطلاق صحابہ میں سے ایک فرد پر محض عملی صورت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا گیا، جیسا کہ بعض روایات میں حضرت ابوذر ؓ کو آپ ﷺ نے فرمایا یا ابا ذرانک امرء فیک جاھلیۃ۔ حالانکہ جاہلیت معصیت وشرک جیسے امور پر مشتمل ہونے والا عنوان ہے تو اس طرح کے بعض تنبیہی عنوانات حضرات صحابہ کی عدالت اور دین کے اس مسلم قانون کے منافی نہیں جو مشہور ہے۔ الصحابۃ کلھم عدول “۔ علامہ آلوسی (رح) فرماتے ہیں صحابہ کی عدالت تو مسلمات دین میں سے ہے لیکن عدالت کے لئے عصمت لازم نہیں کہ اس ذات سے کوئی معصیت اور خطا سرزد ہی نہ ہو البتہ یہ ضروری ہے کہ اگر کسی وقت بہ تقاضائے بشریت کوئی چوک اور غلطی واقع ہوجائے تو وہ اس پر تائب ہوتے ہیں اور (آیت ) ” رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ “۔ کا مقام ایمان وتقوی اور توبہ جیسے عالی اوصاف ہی کے ساتھ جمع ہوسکتا ہے۔ قاضی ابویعلی ؓ کا قول ہے۔ ” رضاء “ اللہ رب العزت کی ایک صفت ہے وہ اپنی رضا کا اعلان انہی لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ انکی وفات موجبات رضا پر ہوگی اس لئے اگر کسی صحابی سے کسی وقت کوئی غلطی سرزد ہوئی اور اس پر وہ تائب ہوگئے تو یہ عدالت کے منافی نہیں ہے کیونکہ تو بہ تو گناہوں کو کالعدم کردیتی ہے۔ حضرت حاطب بن ابی بلتعہ ؓ کا واقعہ ہے کہ ان سے ایک غلطی سرزد ہوئی کہ انہوں نے فتح مکہ کے وقت آنحضرت ﷺ کے فوج کشی کی خبر اہل مکہ کو بھیج دی تھی جس پر آیات (آیت) ” یایھا الذین امنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیآء “۔ الخ نازل ہوئیں۔ اسی طرح ایک دفعہ ابولبابۃ بن عبدالمنذر ؓ سے ایک غلطی ہوئی تو انہوں نے خود اپنے آپ کو مسجد نبوی ﷺ کے ایک ستون سے باندھ لیا کہ جب تک میری معافی نازل نہ ہوگی میں اپنے آپ کو اسی ستون سے باندھے رکھوں گا تاآنکہ رسول خدا ﷺ مجھے کھولیں چناچہ معافی نازل ہوئی حتی کہ اس ستون کا نام ہی اسطوانۃ التوبۃ ہوگیا اور اس کی عظیم برکت اور تاثیر کا یہ عالم ہے کہ اس ستون کے سامنے حاضر ہو کر گنہگار جب تائب ہوں تو بارگاہ رب العزت میں ان کی بھی تو بہ شرف قبول حاصل کرلیتی ہے۔ یا اسی طرح بعض حضرات سے کسی گناہ کے سرزد ہونے پر معافی و توبہ اور عند اللہ پاکی کے لئے خود اپنے آپ کو سزا کے لئے پیش کردینا جب کہ کوئی مدعی ہے نہ کوئی استغاثہ ہے اور نہ کسی قسم کی شہادت ہے ، الغرض اس نوع کی تقصیرات جن پر توبہ کا عمل اس قدر قوی ہو کہ اس سے صاحب توبہ اللہ کی بارگاہ میں پہلے کی نسبت زیادہ قرب حاصل کرلے وہ عدالت وتقوی کو مجروح نہیں کرتا بلکہ مزید مراتب کی بلندی کا باعث ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے۔ (آیت ) ” عسی ربکم ان یکفر عنکم سیاتکم ویدخلکم جنت تجری من تحتھا الانھر “۔ قاضی ابوبکر جصاص (رح) نے احکام القرآن میں فرمایا یہ آیت اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ فاسق کی روایت اور خبر قابل اعتبار اور لائق قبول نہیں اور اس ضمن میں یہ قانون متعین فرما دینا کہ (آیت ) ” فتبینوا “۔ یہ ظاہر کررہا ہے کہ ایسی خبر پر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک کہ اس کی پوری تحقیق نہ کرلی جائے اور ایک قرأت میں یہ لفظ (آیت ) ” فتثبتوا “۔ پڑھا گیا ہے یعنی اسکا ثبوت حاصل کرلو، تو جب کسی فاسق کی روایت اور خبر بھی متعبر نہیں تو ظاہر ہے کہ شخص فاسق کی شہادت کیوں کر متعبر ہوسکتی ہے، فاسق شریعت کی اصطلاح میں ہر وہ شخص ہے جو کبائر کا ارتکاب کرتا ہو اور فرائض کا تارک ہو اور اس کے باوجود اس کی طرف سے نہ رجوع ثابت ہو نہ وہ تائب ہوا ہو اور نہ اس نے اپنی حالت معصیت میں تبدیلی کی ہو۔
Top