Tafseer-e-Jalalain - Al-Hujuraat : 4
اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ
اِنَّ الَّذِيْنَ : بیشک جو لوگ يُنَادُوْنَكَ : آپ کو پکارتے ہیں مِنْ وَّرَآءِ : باہر سے الْحُجُرٰتِ : حجروں اَكْثَرُهُمْ : ان میں سے اکثر لَا يَعْقِلُوْنَ : عقل نہیں رکھتے
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں
شان نزول : ان الذین ینادونک من وراء الحجرات یہ آیت بنو تمیم کے بعض گنوار قسم کے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی، جنہوں نے ایک روز دوپہر کے وقت جو کہ آنحضرت ﷺ کے قیلو لے کا وقت تھا، حجرے سے باہر کھڑے ہو کر عامیانہ انداز سے، یا محمد یا محمد کی آوازیں لگائیں تاکہ آپ باہر تشریف لے آئیں (مسند احمد) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی اکثریت بےعقل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ﷺ کی جلالت شان اور آپ ﷺ کے ادب و احترام کے تقاضوں کا خیال نہ رکھنا بےعقلی ہے، امام بغوی نے بروایت قتادہ رحمتہ اللہ تعالیٰ ذکر کیا ہے کہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ جو آپ کے خدمت میں حاضر ہوئے تھے جن کا ذکر اوپر آچکا ہے، یہ لوگ دوپہر کے وقت مدینہ منورہ پہنچے جب آپ کسی حجرے میں آرام فرما رہے تھے یہ اعرابی، آداب معاشریت سے ناقواف تھے، انہوں نے حجروں کے باہر ہی سے پکارنا شروع کردیا (اخرج الینا یا محمد) اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی جس میں اس طرح پکارنے سے منع کیا گیا ہے۔ حجرات امہات المومنین : ابن سعد نے بروایت عطاء خراسانی لکھا ہے کہ یہ حجرے کھجور کی شاخوں سے بنے ہوئے تھے اور ان کے دروازوں پر موسیاہ اون کے پردے پڑے ہوئے تھے، امام بخاری نے ادب المفرد میں اور بیہقی نے دائود بن قیس سے روایت کیا ہے وہ فرما ہیں کہ میں نے ان حجروں کی زیارت کی ہے میرا گمان یہ ہے کہ حجرے کے دروازے سے مسقف بیت تک چھ یا سات ہاتھ اور کمرہ دس ہاتھ اور چھت کی اونچائی سات یا آٹھ ہاتھ ہوگی، امہات المومنین کے یہ ہجرے ولید بن عبدالمالک کے دور حلو میں ان کے حکم سے مسجد نبوی میں شامل کردیئے گئے، مدینہ منورہ میں اس روز گریہ و بکا طاری تھا۔ (معارف)
Top