Bayan-ul-Quran - An-Nahl : 38
لَا یَسْتَوِیْۤ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ؕ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآئِزُوْنَ
لَا يَسْتَوِيْٓ : برابر نہیں اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے وَاَصْحٰبُ الْجَنَّةِ ۭ : اور جنت والے اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ : جنت والے هُمُ : وہی ہیں الْفَآئِزُوْنَ : مراد کو پہنچنے والے
دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے برابر نہیں، جنت والے ہی اصل میں کامیاب ہیں
لاَ یَسْتَوِیْٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ط اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمُ الْفَـآئِزُوْنَ ۔ (الحشر : 20) (دوزخ میں جانے والے اور جنت میں جانے والے برابر نہیں، جنت والے ہی اصل میں کامیاب ہیں۔ ) اہلِ جنت اور اہل دوزخ یکساں نہیں جو شخص عرفانِ ذات اور معرفتِ رب کی دولت کو پا گیا اسے وہ زندگی نصیب ہوتی ہے جو قیامت کے دن اس کے لیے جنت کا باعث بنے گی۔ کیونکہ وہ اپنے عرفان سے اپنی حقیقت کو پہچان لے گا کہ وہ ایک بندہ ہے اور معرفتِ حق سے وہ اللہ تعالیٰ کی آقائی اور کبریائی کی حقیقت کو پالے گا۔ اور اسے یقین ہوجائے گا کہ میری بندگی کی مستحق صرف وہ ذات ہے جو میری اِلٰہ ہے، جو میری خالق ومالک ہے، جس نے مجھے زندگی کی تمام نعمتیں عطا کی ہیں اور جو میری حیات و ممات پر قادر ہے۔ اس کے نتیجے میں اسے وہ زادسفر نصیب ہوگا جو اس کو جنت تک پہنچا دے گا۔ اور اس سلسلے میں مزید فرمایا کہ کوئی شخص اس کو محض فلسفے کا سوال نہ سمجھے کہ اہل جنت یا اہل دوزخ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے، زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ ایک اعلیٰ ہوگی اور دوسری ادنیٰ ۔ اس لیے اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اصحابِ نار اور اصحابِ جنت دونوں یکساں نہیں، دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مرکز اور فوزوفلاح کا مقام ہے اور دوسرا ابدی نقمت و لعنت کا مرکز اور ہمیشہ کی رسوائی کی جگہ، جس میں ایک لمحے کے لیے بھی کوئی شخص رکنا گوارا نہیں کرسکتا۔ اس لیے فوزوفلاح کی جتنی صورتیں ممکن ہوسکتی ہیں وہ سب اہل جنت کے لیے ہیں۔ اور لعنت و عذاب کے جتنے تصورات بھی ہوسکتے ہیں وہ سب اہل دوزخ کے لیے ہیں۔ ظاہر ہے یہ دونوں نہ صرف یکساں نہیں بلکہ دونوں میں کوئی مناسبت نہیں۔
Top