Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 38
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُ١ؕ بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ : سخت اَيْمَانِهِمْ : اپنی قسم لَا يَبْعَثُ : نہیں اٹھائے گا اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّمُوْتُ : جو مرجاتا ہے بَلٰى : کیوں نہیں وَعْدًا : وعدہ عَلَيْهِ : اس پر حَقًّا : سچا وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور وہ زور دار قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اسے قیامت کے دن اللہ (دوبارہ) نہیں اٹھائے گا۔ کیوں نہیں ؟ اس پر اس کا وعدہ سچا ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں۔
لغات القرآن آیت نمبر 38 تا 40 اقسموا انہوں نے قسم کھائی۔ جھد ایمان قسموں میں زور دار۔ لایبعث دوبارہ نہیں اٹھائے گا۔ اردنا ہم نے ارادہ کیا۔ تشریح : آیت نمبر 38 تا 40 نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کی سب سے بڑی دل یل یہ ہے کہ وہ بات بات پر قسم کھاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس کو قسمیں کھانے کی عادت پڑجائے وہ بڑی سے بڑی سچائی کو جھٹلانے سے بھی باز نہیں آتا۔ بخاری و مسلم میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک صحابی رسول ﷺ کا کسی کافر پر کچھ قرض تھا وہ مسلمان صحابی اس سے قرض واپس کرنے کا مطالبہ کرتے تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتا اور آخر کار اس نے قرض واپس کرنے سے انکار کردیا۔ صحابی رسول ﷺ نے کہا کہ مجھے تو آخرت پر یقین ہے وہاں ایک ایک بات کا بدلہ ملے گا۔ اس کافر نے اللہ کی قسم (جوان کے نزدیک سب سے اہم قسم ہوتی تھی) کھا کر کہا کہ جب انسان گل سڑ کر ختم ہوجائے گا تو اس کو دوبارہ اٹھایا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ بخاری و مسلم میں یہ بھی آتا ہے کہ اس کا فر نے (مذاق اڑاتے ہوئے) کہا اچھا دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا ؟ تب وہاں مجھ سے قرض وصول کرلینا۔ یہ اور اسی طرح کی بہت سی باتوں پر وہ مذاق اڑاتے اور آخرت کا انکار کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا کہ جو لوگ اللہ کی قسمیں کھا کر یہ کہتے ہیں کہ جب آدمی مر جائے گا تو اس کا دوبارہ اٹھ کھڑا ہونا یعنی زندہ ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ فرمایا کہ کیوں نہیں یہ تو اللہ کا سچا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا۔ اس حقیقت سے اکثر لوگ ناواقف ہیں اور جہالت کے اندھیروں میں دھکے کھا رہے ہیں۔ وہ قیامت کا دن ایسا ہوگا۔ کہ صرف مرنے والے ہی دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے بلکہ دنیا میں وہ جن باتوں کا اور دین حق کا انکار رتے تھے اس کا پورا پورا حساب لیا اجئے گا۔ اس دن ان کافروں کو پتہ چل جائے گا کہ وہ اپنے عقیدے اور فکر میں کس قدر بڑی غلطی پر تھے۔ فرمایا کہ شاید ان کا یہ خیال ہے کہ ایسا کس طرح ممکن ہوگا۔ یعنی جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور ذرہ ذرہ بن کر بکھر جائیں گے تو ہمارے اجزا کو کیسے جمع کیا جائے گا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کام کو کرنا چاہتا ہے تو اس کے کرنے میں اسباب اور چیزوں کا محتاج نہیں ہے بلکہ وہ حکم دیتا ہے کہ ” ہوجا “ تو وہ چیز ہوجاتی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا دن مقرر کیا ہوا ہے جس میں ابتدائے کائنات سے قیامت تک جتنے بھی انسان ہیں ان کو اپنے حکم سے دوبارہ زندہ کرے گا اور ایک ایک بات کا حساب و کتاب لے کر اس کے لئے فیصلے فرمائے گا۔ اس میں کسی طرح کے شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو دنیا کی اس مختصر سی زندگی میں انسان کے کئے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ مل ہی نہیں سکتا عقل کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ایک اور جہاں ہو جہاں حق و صداقت پر چلنے والوں کو ان کا پورا پورا بدلہ ملے اور جنہوں نے کفر و شرک اور بدعات میں اپنا وقت گذارا ہے ان کو ان کے گناہوں کی پوری پوری سزا دی جائے۔ ہر مومن کا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ قیامت آئے گی اور تمام انسانوں کے بھلے برے اعمال کا فیصلہ کر کے ان کو جنت یا جہنم کی ابدی زندگی میں داخل کیا جائے گا۔ کافر یہ سمجھتا ہے کہ بس یہ دنیا کی زندگی ہی سب کچھ ہے۔ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان آیات میں ان دونوں نظریات اور ان کے نتائج کو بیان فرمایا گیا ہے۔
Top