Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Nahl : 38
وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَیْمَانِهِمْ١ۙ لَا یَبْعَثُ اللّٰهُ مَنْ یَّمُوْتُ١ؕ بَلٰى وَعْدًا عَلَیْهِ حَقًّا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَۙ
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی بِاللّٰهِ : اللہ کی جَهْدَ : سخت اَيْمَانِهِمْ : اپنی قسم لَا يَبْعَثُ : نہیں اٹھائے گا اللّٰهُ : اللہ مَنْ يَّمُوْتُ : جو مرجاتا ہے بَلٰى : کیوں نہیں وَعْدًا : وعدہ عَلَيْهِ : اس پر حَقًّا : سچا وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَ : اکثر النَّاسِ : لوگ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ جو مرجاتا ہے خدا اسے (قیامت کے دن قبر سے) نہیں اٹھائے گا۔ ہرگز نہیں۔ یہ (خدا کا) وعدہ سچا ہے اور اس کا پورا کرنا اسے ضرور ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے
قیامت یقینا قائم ہوگی کیونکہ کافر قیامت کے قائل نہیں اس لئے دوسروں کو بھی اس عقیدے ہٹانے کے لئے وہ پوری کوشش کرتے ہیں ایمان فروشی کر کے اللہ کی تاکیدی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ نہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت ضرور آئے گی اللہ کا یہ وعدہ برحق ہے لیکن اکثر لوگ بوجہ اپنی جہالت اور لا علمی کے رسولوں کے خلاف کرتے ہیں، اللہ کی باتوں کو نہیں مانتے اور کفر کے گڑھے میں گرتے ہیں۔ پھر قیامت کے آنے اور جسموں کے دوبارہ زندہ ہونے کی بعض حکمتیں ظاہر فرماتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ دنیوی اختلافات میں حق کیا تھا وہ ظاہر ہوجائے، بروں کو سزا اور نیکوں کو جزا ملے۔ کافروں کا اپنے عقیدے، اپنے قول، اپنی قسم میں جھوٹا ہونا کھل جائے۔ اس وقت سب دیکھ لیں گے کہ انہیں دھکے دے کر جہنم میں جھونکا جائے گا اور کہا جائے گا کہ یہی ہے وہ جہنم جس کا تم انکار کرتے رہے اب بتاؤ یہ جادو ہے یا تم اندھے ہو ؟ اس میں اب پڑے رہو۔ صبر سے رہو یا ہائے وائے کرو، سب برابر ہے، اعمال کا بدلہ بھگتنا ضروری ہے۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے پھر اپنی بےاندازہ قدرت کا بیان فرماتا ہے کہ جو وہ چاہے اس پر قادر ہے کوئی بات اسے عاجز نہیں کرسکتی، کوئی چیز اس کے اختیار سے خارج نہیں، وہ جو کرنا چاہے فرما دیتا ہے کہ ہوجا اسی وقت وہ کام ہوجاتا ہے۔ قیامت بھی اس کے فرمان کا عمل ہے جیسے فرمایا ایک آنکھ جھپکنے میں اس کا کہا ہوجائے گا تم سب کا پیدا کرنا اور مرنے کے بعد زندہ کردینا اس پر ایسا ہی ہے جیسے ایک کو اسھر کہا ہوجا ادھر ہوگیا۔ اس کو دوبارہ کہنے یا تاکید کرنے کی بھی ضرورت نہیں اس کے ارادہ سے مراد جدا نہیں۔ کوئی نہیں جو اس کے خلاف کرسکے، اس کے حکم کے خلاف زبان ہلا سکے۔ وہ واحد وقہار ہے، وہ عظمتوں اور عزتوں والا ہے، سلطنت اور جبروت والا ہے۔ اس کے سوا نہ کوئی معبود نہ حاکم نہ رب نہ قادر۔ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ابن آ دم مجھے گالیاں دیتا ہے اسے ایسا نہیں چاہئے تھا۔ وہ مجھے جھٹلا رہا ہے حالانکہ یہ بھی اسے لائق نہ تھا۔ اس کا جھٹلانا تو یہ ہے کہ سخت قسمیں کھا کر کہتا ہے کہ اللہ مردوں کو پھر زندہ نہ کرے گا میں کہتا ہوں یقینا زندہ ہوں گے۔ یہ برحق وعدہ ہے لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں اور اس کا مجھے گالیان دینا یہ ہے کہ کہتا ہے اللہ تین میں کا تیسرا ہے حالانکہ میں احد ہوں، میں اللہ ہوں، میں صمد ہوں، جس کا ہم جنس کوئی اور نہیں۔ ابن ابی حاتم میں تو حدیث موقو فا مروی ہے۔ بخاری و مسلم میں دو سرے لفظوں کے ساتھ مرفو عا روایت بھی آئی ہے۔
Top