Al-Quran-al-Kareem - Al-A'raaf : 63
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
اَوَعَجِبْتُمْ : کیا تمہیں تعجب ہوا اَنْ : کہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آئی ذِكْرٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب عَلٰي : پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْكُمْ : تم میں سے لِيُنْذِرَكُمْ : تاکہ وہ ڈرائے تمہیں وَلِتَتَّقُوْا : اور تاکہ تم پرہیزگار اختیار کرو وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
اور کیا تم نے عجیب سمجھا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک آدمی پر ایک نصیحت آئی، تاکہ وہ تمہیں ڈرائے اور تاکہ تم بچ جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ۔۔ : تمام کافر اقوام کا اعتراض یہی تھا کہ ہمیں میں سے ایک شخص یعنی کوئی انسان رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ جیسا کہ آج کل کے کئی کلمہ گو کہتے ہیں کہ جو نبی ہو وہ انسان کیسے ہوسکتا ہے ؟ دونوں کی اصل مشکل ایک ہی ہے۔ نوح ؑ کا جواب یہ تھا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہاری طرف نصیحت بھیجی، تاکہ وہ نمونہ بنے، تمہیں خبردار کرے اور تم اللہ سے ڈرو اور تم پر رحم ہوجائے۔ فرشتے یا کسی اور مخلوق کو بھیجنے سے یہ مقصد کبھی حاصل نہ ہوتا۔ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ : اشارہ فرمایا کہ انبیاء کی دعوت قبول کرلینے سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ آخرت میں رحمت کا سبب بنے گا۔ (رازی)
Top