Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 63
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
اَوَعَجِبْتُمْ : کیا تمہیں تعجب ہوا اَنْ : کہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آئی ذِكْرٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب عَلٰي : پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْكُمْ : تم میں سے لِيُنْذِرَكُمْ : تاکہ وہ ڈرائے تمہیں وَلِتَتَّقُوْا : اور تاکہ تم پرہیزگار اختیار کرو وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
کیا تم لوگوں کو اس پر تعجب ہو رہا ہے کہ تمہارے پاس ایک عظیم الشان نصیحت آگئی تمہارے رب کی جانب سے، خود تم ہی میں سے ایک شخص کے ذریعے ؟ تاکہ وہ تمہیں خبردار کرے، (تمہارے انجام سے) اور تاکہ تم پرہیزگار بن سکو، اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے،2
85 پیغمبر کا ہر حکم و ارشاد علم پر مبنی ہوتا ہے : کہ اس نے مجھے وحی و نبوت سے نوازا ہے جبکہ تم سب لوگ محض ظن و گمان اور خیال وتخمین کے پیچھے چلتے ہو۔ سو یہ پیغمبر کی ایک امتیازی شان ہوتی ہے کہ ان کا ہر قول و فعل اور حکم و ارشاد علم صحیح کی ٹھوس بنیاد پر قائم و استوار ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے پاس اس خالق ومالک کی طرف سے وحی آتی ہے جو اس ساری کائنات کا خالق ومالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے۔ اور ایسا خالق ومالک اور اس شان کا حاکم و متصرف کہ نہ اسکی اس تخلیق میں کوئی اس کا شریک ہے اور نہ اسکے اس حکم و تصرف میں جبکہ وحی کے نور سے محروم دنیا کا سارا کام محض ظن وتخمین اور اندازہ و قیاس پر چلتا ہے۔ سو پیغمبر کے حکم و ارشاد کا کوئی بدلہ اور مقابلہ کسی سے ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ سو یہیں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جو لوگ نور وحی پر ایمان سے محروم ہیں وہ کس قدر محروم اور بدنصیب لوگ ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف حضرت نوح نے اپنی قوم سے کہا کہ میں خداوند قدوس کے پیغام تم لوگوں کو پہنچا رہا ہوں۔ اگر تم لوگ ناقدری کر کے ان سے منہ موڑو گے اور ان کے جواب میں اعراض اور روگردانی برتو گے تو اس کے نتیجے میں تمہیں بڑا ہولناک بھگتان بھگتنا پڑیگا۔ اور تم لوگ حق و ہدایت کی سب سے بڑی دولت سے محروم ہو کر دنیا و آخرت کے سب سے بڑے نقصان اور انتہائی ہولناک خسارے میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ اور تمہارے لئے اندھیرے ہی اندھیرے ہوں گے۔ اور میں تمہارے لئے سچی خیر خواہی کرتا ہوں۔ تم لوگ چونکہ صرف ظاہر اور مادیت و محسوسات کو دیکھنے کے عادی ہو اور انہی پر تکیہ و آسرا کئے ہو اس لئے تم کو عذاب کا ڈراوا عجیب لگتا ہے، لیکن میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ تم لوگ اگر اپنی ظاہری چمک دمک کے ساتھ اپنے ان روگوں اور عیبوں کو بھی دیکھ لیتے جو تم نے اپنے سفید کپڑوں کے نیچے چھپا رکھے ہیں تو تمہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ میں کتنی سچی بات کہتا ہوں اور تمہارا کس قدر خیر خواہ ہوں۔ 86 پیغمبر کا بشر اور جنس بشر سے ہونا قدرت کا ایک مستقل انعام و احسان ہے : یعنی یہ تو عقل و فطرت کے عین مطابق اور خداوند قدوس کی رحمت بےکراں اور عنایت بےنہایت کا عظیم الشان مظہر و مقتضٰی ہے۔ کہ اس نے اس عظیم الشان طریقے سے تمہارے لئے دارین کی ابدی سعادت و سرخروئی اور دائمی فوزو فلاح کا انتظام فرمایا۔ کہ تمہیں نور ہدایت کی دولت سے نوازا اور تمہارے اپنے اندر ہی سے ایک شخص کو نبوت و رسالت کے شرف سے سرفراز فرما کر نوازا۔ تاکہ تم اس سے حق بات کو صحیح طور پر اور آسانی سے سمجھ کر اپنا سکو۔ آخر اس میں تعجب یا انکار کی کون سی بات ہوسکتی ہے ؟ سو تم لوگ کتنے ناشکرے اور کس قدر بےانصاف ہو جو اپنے خالق ومالک کی ان عظیم الشان عنایات کی اسطرح بےقدری اور ناشکری کرتے ہو ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ پیغمبر کا بشر اور نوع انسانی میں سے ہونا قدرت کا مستقل انعام و احسان ہے جس سے حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے دنیا کو نوازا اور سرفراز فرمایا ہے۔ لیکن انسان کی ناشکری اور بےانصافی ہمیشہ یہی رہی کہ اس نے قدرت کے اس احسان کو پہچاننے اور اسکی قدر کرنے کی بجائے الٹا اسی کو مورد الزام و اعتراض بنایا۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ اور اسی کا ایک نمونہ و مظہر یہ ہے کہ ہمارے دور کے بہت سے اہل بدعت بھی ایسے ہیں جو پیغمبر کو بشر ماننے ہی کیلئے تیار نہیں۔ اور ایسے لوگ حضرات انبیاء و رسل کے بارے میں وحی خداوندی میں وارد " مِنْہُمْ " " مِنْکُمْ " " مِنْ اَنْفُسِہِمْ " " مِنْ اَنْفُسِکُمْ " وغیرہ جیسے کلمات میں طرح طرح کی تاویلات سے کام لیتے ہیں۔
Top