Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 63
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِیُنْذِرَكُمْ وَ لِتَتَّقُوْا وَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ
اَوَعَجِبْتُمْ : کیا تمہیں تعجب ہوا اَنْ : کہ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آئی ذِكْرٌ : نصیحت مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب عَلٰي : پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْكُمْ : تم میں سے لِيُنْذِرَكُمْ : تاکہ وہ ڈرائے تمہیں وَلِتَتَّقُوْا : اور تاکہ تم پرہیزگار اختیار کرو وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم پر تُرْحَمُوْنَ : رحم کیا جائے
کیا تم نے تعجب کیا ہے اس بات پر کہ آئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے پروردگار کی جانب سے ایک مرد پر تم میں سے تاکہ وہ تم کو ڈرا دے اور تاکہ تم بچ جائو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے
ربط آیات نبوت اور رسالت کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر کیا ہے آپ کی تبلیغ آپ کے ساتھ قوم کا سلوک ، آپ کی بددعا اور پھر قوم کی ہلاکت کو یہاں پر اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے سورة نوح صرف آپ ہی کے حالات پر مشتمل ہے سورة ہود میں پورے دو رکوع میں آپ کے حالات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس کے علاوہ بعض دوسری سورتوں میں بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کے جتہ جتہ واقعات موجود ہیں حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد انبیاء کے سلسلے کی اہم ترین شخصیت حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں آپ نے سب سے پہلے اپنی قوم کو توحید کا درس دیا اور کفر اور شرک سے منع کیا مگر آپ کی قوم کے سرداروں نے آپ کی دعوت کو جھٹلا دیا اور کہنے لگے کہ تم خود گمراہ ہو اور ہمیں اپنے آبائو اجداد کے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہو حضرت نوح (علیہ السلام) نے نہایت وثوق کے ساتھ فرمایا کہ اے میری قوم کے لوگو ! مجھ میں گمراہی والی کوئی بات نہیں ، میں تو رب تعالیٰ کی طرف سے رسول ہوں اس کا پیغام تم تک پہنچاتا ہوں اور مجھے تمہاری خیر خواہی مقصود ہے نیز میرے پاس یقینی علم ہے جس کی وجہ سے میں ایسی چیزوں کو جانتا ہوں جن کو تم نہیں جانتے میں ان نتائج سے بھی واقف ہوں جو نیکی یا بدی پر مرتب ہونے والے ہیں مجھے علم ہے کہ ایمان کا نتیجہ کیا ہوگا اور کفر و شرک کس انجام کو پہنچے گا۔ بشریت رسول آج کے درس کی پہلی آیت بھی حضرت نوح (علیہ السلام) کے اپنی قوم سے خطاب ہی کا حصہ ہے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے آپ نے قوم سے فرمایا اوعجبتم کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو ان جاء کم ذکرمن ربکم کہ تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی ہے علی رجل منکم تمہیں میں سے ایک مرد پر مطلب یہ ہے کہ اس میں کون سی انوکھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اس کے بندوں میں سے ایک مرد پر آجائے یہ تو معروف بات ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنایا تو ان کی بعض خصوصیات ان کی اولاد میں بھی رکھیں چناچہ آپ کی اولاد میں سے اللہ تعالیٰ نے ایسے صاحب استعداد و کمال بندے پیدا کیے جنہیں نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا ، فرمایا تمہیں میں سے ایک مرد کو یہ شرف بخشا کہ اس کے پاس نصیحت آئی گزشتہ درس میں بھی گزر چکا ہے لقد ارسلنا نوحاً الی قومہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو انہی کی قوم کے پاس بھیجا ہے لہٰذا کسی نبی یا رسول کا اس کی اپنی قوم میں سے ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ یہ توعین فطرت کی بات ہے یہ تو کافروں اور مشرکوں کا شیو ہے کہ وہ انسان کی رسالت سے انکار کرتے رہے ہیں ان کا استدلال یہ رہا ہے ابشریھدوننا (التغابن) کیا آدمی اور بشر ہماری رہنمائی کریں گے بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان رسول بن کر آجائے یہ تو ہماری طرح کھاتے پیتے ہیں بازاروں میں چلتے پھرتے ہیں ان کے بیوی بچے ہیں تمام لوازمات انسانی ان میں پائے جاتے ہیں ہم انہیں کیسے رسول تسلیم کرلیں قرآن پاک نے یہ باتیں تفصیل کے ساتھ بیان کردی ہیں سورة قمر میں قوم لوط کا یہ اعتراض بھی ہے ابشراً منا واحداً نتبعہ ہم اپنے میں سے ایک بشر کی پیروی اختیار کرلیں ؟ اگر ہم ایسا کریں گے تو غلط کار اور گمراہ ہوجائیں گے ہم بےعقل ہوجائیں گے غرضیکہ کفار نے ہمیشہ رسالت کو بشریت کے منافی سمجھا۔ رسول بطور نمونہ کفار کا نظریہ یہ تھا کہ اگر کوئی رسول ہماری طرف آتا ہے تو وہ انسان نہیں ہونا چاہیے بلکہ فرشتہ ہو جو نہ کچھ کھائے ، نہ پئے ، نہ گلیوں بازاروں میں پھرے نہ اس کے بیوی بچے ہوں یہی کفر کی بات تھی سورة انعام کی ابتداء میں گزر چکا ہے کہ کافر لوگ کہتے تھے کہ کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل ہوتا تو اللہ نے فرمایا کہ اگر ہم کسی فرشتے کو نازل کردیتے تو ان کا کام ہوچکا ہوتا کیونکہ یہ لوگ بحیثیت انسان فرشتے کو برداشت ہی نہ کرسکتے اور فوراً ہلاک ہوجاتے اور اگر ہم فرشتے کو انسانی صورت میں بھیجتے تو یہ اسی شک و شبہ میں مبتلا رہتے اور ایمان نہ لاتے اسی مضمون کو سورة بنی اسرائیل میں واضح طور پر یوں بیان کیا گیا ہے قل لوکان فی الارض ملیکۃ یمشون مطمنین لنزلنا علیھم منن السماء ملکاً رسولاً یعنی اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان پر فرشتے کو ہی رسول بناکر نازل کرتے مقصد یہ کہ رسول اسی جنس میں ہونا چاہیے جس جنس کو ہدایت دینا مطلوب ہے چونکہ اس زمین پر انسان بستے ہیں لہٰذا ان کی ہدایت بھی انسان ہی کے ذریعے ممکن ہے جو اپنی قوم کے لیے ایک نمونہ بن سکے سورة احزاب میں واضح طور پر موجود ہے لقد کان الکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ تمہارے لیے اللہ کے رسول ہیں بہترین اسوہ ہے یہی بات حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق سورة ممتخہ میں یوں ہے قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم والذین معہ حضرات ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں میں تہارے لیے اچھا نمونہ ہے انسان ہوتے ہوئے انہوں نے کیسے پاکیزہ کام انجام دیے اور کس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر کمر بستر رہے فرشتے کسی انسان کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے کیونکہ وہ انسانی لوازمات اور اور ضروریات سے پاک ہیں حتیٰ کہ ان میں جنسی تفریق بھی نہیں ہے اسی طرح جن بھی انسانوں کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے انسانوں میں مٹی کا غلبہ ہوتا جب کہ جنوں میں ناریت غالب ہوتی ہے ان دو اجناس کے قویٰ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں لہٰذا جن بھی نمونہ نہیں بن سکتے غرضیکہ انسانوں کے لیے انسان ہی نمونہ بن سکتے ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ انسانوں کو ہی نبی اور رسول بنا کر بھیجتا رہا ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر تعجب کرتے وہ کہ تمہیں میں سے ایک مرد رسول بن کر آیا ہے۔ مرد و زن میں تفاوت اس آیت کریمہ میں رجل کا لفظ ایک دوسرے نقطہ نظر سے بھی توجہ طلب ہے اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت فرمادی ہے کہ نبی اور رسول ہمیشہ مرد ہوتا ہے کوئی عورت اس منصب پر فائز نہیں ہوسکتی اگرچہ خدائی قانون میں مرد اور عورت یکساں مکلف ہیں مگر اپنی اپنی ساخت کے اعتبار سے بعض کام مرد نہیں کرسکتے اور بعض کام عورتیں نہیں کرسکتیں اللہ نے مرد کو عورت پر حکام بنایا ہے ان کے قویٰ اور حواس مردوں سے کم تر ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نظام حکومت جیسا مشکل کام مردوں کے سپرد کیا ہے شرائع الٰہیہ میں عنان حکومت سنبھالنے کے لیے ایسے مرد کی خدمات درکار ہیں جو عاقل ، بالغ ، صاحب عمل و اجتہاد ، حکیم اور کام الاخلاق ہو امام شاہ ولی اللہ (رح) فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کے لیے بہادر اور شجاع ہونا بھی ضروری ہے اور وہ معیوب بھی نہیں ہونا چاہیے۔ علم عقائد والے کہتے ہیں کہ لفظ نبی دو مادوں سے ہے اس کا ایک مادہ نبوء ہے جس کا معنی بلندی ہوتا ہے اللہ کا نبی اپنے اعمال اور اخلاق کے لحاظ سے عام اہل ایمان کی نسبت بہت بلند ہوتا ہے بلکہ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں کہ ہر انسان میں پانچ حواس ہوتے ہیں جب کہ نبی میں چھٹا حاسہ بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ وحی الٰہی کو قبول کرتا ہے اور ملائکہ سے ارتباط قائم کرتا ہے لہٰذا نبی ہر لحاظ سے امت کی نسبت بلند تر ہوتا ہے اگر نبی کا مادہ نبا لیا جائے تو معنی خبر دینے والا بنتا ہے گویا اللہ کا نبی اللہ تعالیٰ سے عالم بالا کی خبر پاکر امت تک پہنچاتا ہے دین اور شریعت کے تمام احکام اللہ کی طرف سے نبی پر نازل ہوتے ہیں لہٰذا وہ ان سب امور کی خبر دینے والا ہوتا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ اہل بدعت نبی کا غلط معنی کرتے ہیں کہتے ہیں کہ نبی کا معنی غیب دان ہے حالانکہ غیب دان صرف خدا وند تعالیٰ کی ذات ہے علم عقائد والے نبی کی تعریف یوں کرتے ہیں ھو انسان بعثہ اللہ لتبلیغ ما اوحہ اللہ الیہ (عقائد جلالی) یعنی نبی انسان ہوتا ہے جو شریعت کے احکام لوگوں تک پہنچانے پر مامور ہوتا ہے گویا نبی کے انسان ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے سورة انبیاء میں یہ تصریح موجود ہے وما ارسلنا قبلک الا رجالاً نوحی الیھم اے خاتم النبیین ﷺ آپ سے پہلے بھی ہم نے مردوں کو ہی رسول بناکر بھیجا ہم ان کی طرف وحی کرتے تھے یعنی آج تک نبوت کسی عورت کے حص میں نہیں آئی اسی لیے حضور ﷺ کا فرمان ہے کمل من الرجال کثیر ولم یکمل من النساء الا… یعنی مردوں میں سے تو بہت سے کامل لوگ گزرے ہیں مگر عورتوں میں کوئی کامل درجے کی نہیں ہوئی سوائے حضرت مریم ، آسیہ (فرعون کی بیو) خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد آپ نے ان چند عورتوں کا ذکر فرمایا۔ حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت کا بھی ذکر ہوا اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کو صدیقیت کے درجے پر فائز فرمایا جو کہ انبیاء کے بعد درجہ ہے نبوت اس سے بلند تر مقام ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے متعلق قرآن میں فرمایا امہ صدیقۃ (المائدہ) یعنی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ صدیقہ تھیں نہ کہ نبی کیونکہ نبوت ان کے حسب حال نہیں تھی۔ مردوزن کا دائرہ کار امام عبدالوہاب شعرانی (رح) لکھتے ہیں کہ تمام اہل حق اس بات پر متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے احکام شرع کی تبلیغ کا کام مردوں پر لازمی قرار دیا ہے نہ کہ عورتوں پر عورتوں کو تبلیغ کا کام سونپنا عیسائی مشنریوں کی تقلید ہے اب ان کی دیکھا دیکھی مسلمانوں نے بھی عورتوں کو تبلیغ پر بھیجنا شروع کردیا ہے مگر یہ غلط ہے عورتیں گھروں اور مدرسوں میں تعلیم و تربیت کا کام تو انجام دے سکتی ہیں مگر مردوں کی طرف جماعت کی شکل میں تبلیغ کے لیے نکلنا غیر فطری امر ہے اسکے نتائج اچھے نہیں نکل سکتے بلکہ قباحتیں پیدا ہونے کا خطرہ ہے انگریز نے تو اسی آڑ میں بےحیائی کے بڑے بڑے ریکارڈ قائم کیے ہیں وزیراعظم ہیٹی غیر شادی شدہ تھا اسے کسی تقریب کی دعوت دینے کے لیے جو نوجوان لڑکیاں اس کے پاس گئیں وہ بالکل برہنہ تھیں اور پولیس ان کی حفاظت کررہی تھی کہیں پرانے زمانے کی تاریخ میں یہ ملتا ہے کہ لیڈ گوڈیا نے بالکل برہنگی کی حالت میں گھوڑے پر سوار ہو کر ٹیکس کے خلاف جلوس کی قیادت کی تھی آج مسلمانوں میں وہی چیزیں عود کررہی ہیں جو کہ نہایت ہی شرم کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے عورت کو ہر معاملہ میں پیچھے رکھا ہے حتیٰ کہ نماز میں بھی عورتوں کی صف مردوں کے پیچھے ہوتی ہے اگر عورتیں اگلی صف میں کھڑی ہوجائیں تو نماز فاسد ہوجائے گی آج دنیا میں ہر جگہ عورتوں کو آگے لایا جارہا ہے اسلامی ممالک میں بھی انہیں پارلیمنٹ کا ممبر ، وزیر اور مشیر بنایا جاتا ہے حتیٰ کہ سربراہ مملکت بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا بخاری شریف میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واضح اشارہ ہے لن یفلح قوم ولو امرھم امراۃ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کردیے بہرحال یہ علی رجل کی تشریح میں عرضا کردیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی عورت کو نبی یا رسول بناکر نہیں بھیجا بلکہ یہ فریضہ ہمیشہ مردوں کو سونپا جاتا رہا ہے۔ بشر کی فضیلت نبی ہمیشہ انسان ، بشر اور مرد ہوتا ہے البتہ عام انسانوں کی نسبت انبیاء معصوم ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کی براہ راست نگرانی میں ہوتے ہیں اور بلند ترین مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں نبی کو بشر کہنا معاذ اللہ کوئی توہین کی بات نہیں ہے بلہ یہ تو عزت کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انی خالق بشراً من طین میں مٹی سے انسان جیسی عظیم ہستی کو پیدا کرنے والا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت اس کا فیضان اور رحمت ہے کہ مٹی جیسی حقیر چیز سے انسان جیسی بڑی ہستی پیدا فرمائی اور اس طرح انسان کو اللہ کے مقرب فرشتوں پر بھی برتری حاصل ہوگئی اللہ تعالیٰ نے خود حضور ﷺ کی زبان مبارک سے بھی اس معاملے کی تشریح کردی قل انما انا بشر مشلکم (سورۃ کہف) میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں میں بھی جسم رکھتا ہوں مجھے بیماری بھی آتی ہے میرے بال بچے اور بیویاں ہیں باقی انسانوں کی طرح مجھے بھی زندگی کے لوازمات کی ضرورت پیش آتی ہے البتہ وحی الی مجھ پر وحی آتی ہے جو کہ بلند ترین اعزاز ہے مگر اہل بدعت نے سمجھا کہ حضور ﷺ اور باقی انبیاء کو بشر تسلیم کرنے سے ان کی توہین ہوجائے گی (معاذ اللہ) چناچہ انہوں نے بھی عیسائیوں والا عقیدہ اپنا لیا ہے عیسائیوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو ولد اللہ اور ابن اللہ کہا جس کی بنا پر اللہ نے فرمایا جعلوا لہ من عبادہ جزاء (زخرف) انہوں نے خدا کے بندوں میں سے اس کا جزو بنالیا اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے آج اہل بدعت نے بھی نور من نور اللہ کا عقیدہ وضع کرلیا ہے اور اس طرح حضور خاتم النبیین ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا جزو بنادیا ہے۔ معصوم صرف نبی ہوتا ہے اہل بدعت نے نبی کو اللہ کے برابر کردیا تو رافضیوں نے اماموں کو نبی کے برابر ٹھہرالیا کہتے ہیں کہ انبیاء کی طرح امام بھی معصوم ہوتے ہیں انبیاء کی عصمت تو قرآن پاک سے ثابت ہے شرح عقائد میں لکھا ہے کہ خدا کی جانب سے انبیاء کو گارنٹی حاصل ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ان سے گناہ نہیں سرزد ہونے دیتا جہاں تک شرک کا تعلق ہے وہ تو آنکھ جھکپنے کے برابر بھی نبی کی ذات سے محال ہے اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی خود حفاظت کرتا ہے برخلاف اس کے آئمہ کی عصمت خود ساختہ ہے امام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی کتاب تفہیمات میں لکھتے ہیں کہ اماموں کی معصومیت کو تسلیم کرنا ختم نبوۃ کے انکار کے مترادف ہے اگر نبی کے علاوہ امتی بھی معصوم بنی جائیں تو پھر نبی کی نبوت کہاں گئی ؟ فرمایا کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو کہ تمہارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک مرد پر نصیحت آئی ہے س آیت میں علی رجل منکم کے الفاظ ہیں جب کہ قرآن پاک کے کئی دوسرے مقامات پر آتا ہے کما ارسلنا فیکم رسولاً منکم (البقرہ) جس طرح ہم نے تمہی میں سے ایک رسول بھیجا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی دعا میں عرض کیا ربنا وابعث فیھم رسولا منھم (البقرہ) اے پروردگار ! انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما سورة الجمعہ میں آتا ہے ھوالذی بعث فی الامین رسولا منھم اللہ تعالیٰ وہی ذات ہے جس نے امیوں میں سے رسول بنا کر بھیجا اللہ تعالیٰ نے اپنا آخرل رسول آپ کی قوم قریش میں سے مبعوث فرمایا جس کو سب پہچانتے تھے آپ کسی کے باپ تھے کسی کے بیٹے ، کسی کے چچا تھے اور کسی کے بھتیجے آپ نے اپنے کردار کو اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر یش کیا فقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ (سورۃ یونس) میں نے عمر کا بڑا حصہ تمہارے درمیان گزارا ہے چالیس سال تک تم میں رہا ہوں کبھی کسی نے میری طرف انگلی اٹھائی ہے کہ اس میں فلاں عیب پایا جاتا ہے مگر جب میں نے اللہ کا پیغام سنایا ہے تو میرے دشمن بن گئے ہو اور مجھے جھوٹا قرار دینے لگے ہوافل تعقلون کیا تم اپنی بھی عقل نہیں رکھتے اور ایک جانے پہچانے شخص پر الزام تراشی کرتے ہو تم تو آج تک مجھے صادق اور امین کہتے رہے ہو مگر آج میری بات کو جھٹلا رہے ہو۔ بعثت انبیاء کا مقصد فرمایا ہم نے تم میں سے ایک مرد کو نصیحت دے کر بھیجا لینذرکم تاکہ تمہیں کفر ، شرک اور برائی کے انجام سے ڈرا دے ولتتقو اور تاکہ تم جہنم کے عذاب سے بچ جائو ولعلکم ترحمون اور تاکہ تم پر حم کیا جائے جو شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو مانے گا اس کے رسول اور کتابوں پر ایمان لائے گا صحیح پروگرام کو قبول کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوگی ابھی پچھلے رکوع میں گزر چکا ہے ان رحمت اللہ و قریب من المحسنین یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہوتی ہے بہرحال یہاں پر یقوم اعبدواللہ سے لیکر لعلکم ترحمون تک حضرت نوح (علیہ السلام) کا اپنی قوم سے خطاب تھا ، اللہ تعالیٰ نے یہاں پر اپنے نبی کی تقریر اور اس کے تبلیغ کے طریقے کو اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے آگے مزید تفصیلات آئیں گی کہ نوح (علیہ السلام) نے کون کون سی باتیں کی تھیں تاریخ انبیاء میں پہلا باب نوح علیہ اسلام کی نبوت و رسالت کا ہے۔ قوم کی تکذیب جب نوح علیہ السلم نے قوم کو دعوت توحید دی فکذبوہ تو انہوں نے اس دعوت کو جھٹلایا کہتے تھے ہم تیرے دعوے کو نہیں مانتے تو العیاذ باللہ جھوٹا ہے بھلا ہمیں میں سے ایک انسان پر وحی کیسے آسکتی ہے کوئی فرشتہ یہ پیغام لاتا تو ہم مان جاتے یا کوئی امیر کیبر ، صاحب مال و جاہ دعویٰ کرتا تو ہم تسلیم کرلیتے تیرے جیسے نادار آدمی کا دعویٰ نبوت تو تسلیم نہیں کیا جاسکتا آگے آرہا ہے کہ حضور خاتم النبیین (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں مکہ والوں نے بھی یہی جواب دیا تھا جو قوم نوح نے دیا کہنے لگے تیرے پیروکار تر کمین لوگ ہیں تیرے پاس نہ کوٹھی نہ باغات اور نہ مال و دولت بھلا تمہیں ہم نبی کیسے مان لیں مکہ اور طائف میں بڑے بڑے رئیس موجود ہیں ان میں سے کوئی دعویٰ کرتا تو بات بھی بنتی نبوت کے لیے ابو طالب کا یتیم بھتیجا ہی رہ گیا تھا بہرحال قوم نوح (علیہ السلام) نے آپ کو جھٹلایا پھر خدا تعالیٰ کا عذاب آیا اور چند ایمانداروں کے سوا سب غرف کردیے گئے حضرت نوح (علیہ السلام) نے تلیغ دین کے لیے بڑی محنت کی بڑی بڑی تکالیف برداشت کیں سورة نوح کا مطالبہ کریں آپ نے تبلیغ دین کے سلسلے میں دن رات ایک کردیا لوگوں کو فرداً فرداً سمجھانے کی کوشش کی بڑے بڑے اجتماعات میں خطاب کیا دعوت کے تمام طریقے اپنائے مگر انہوں نے ایک نہ سنی کہتے ہیں کہ آپ کے زمانہ میں دجلہ اور فرات کا درمیانی حصہ اور مصر کا علاقہ بڑے متمدن خطے تھے نسانی انسانی خوب پھیل چکی تھی مگر حضرت نوح (علیہ السلام) کی تبلیغ نے ان پر کچھ اثر نہ کیا اور بالآخر وہ ہلاک ہوگئے۔ مستحقین نجات ارشاد ہوتا ہے جب خدا کا عذاب بھڑکا فانجینہ والدین معہ فی الفلک تو ہم نے نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھ کشتی میں سوار لوگوں کو بچلیا جب اللہ کے حکم سے آپ نے کشتی بنانی شروع کی تو لوگ تمسخر اڑاتے تھے یہ کوئی چھوٹی موٹی کشتی نہیں تھی بلکہ تورات کے بیان کے مطابق 450 فٹ لمی ، 75 فٹ چوڑی اور 45 فٹ بلند تھی جب طوفان آیا تو صرف کشتی کے سوار ہی بچ سکے بائیبل کے بیان کے مطابق یہ کشتی 150 دن یعنی پانچ ماہ تک پانی میں تیرتی رہی اور پھر آرمینیا کی پہاڑیوں میں سے ایک پہاڑی جودی پر جاکر ٹک گئی کشتی والوں کی تعداد کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے زیادہ راحج رویات یہ ہے کہ ان میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں جن میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹے سام ، عام اور یافث بھی تھے طوفان تھم جانے کے بعد جب یہ لوگ دوبارہ زمین پر آباد ہوئے تو آگے نسل انسانی نوح (علیہ السلام) کے ان تین بیٹوں سے چلی ان کے علاوہ کسی اور سے نسل نہیں بڑھی چناچہ اس وقت پوری دنیا میں جتنے لوگ آباد ہیں وہ ان تین کی اولاد ہیں ہم لوگ سام کی اولاد ہونے کی نسبت سے سامی نسل کہلاتے ہیں اسی طرح حبشہ والے حام کی اولاد سے ہیں اور باقی سب یافث سے۔ مستحقین عذاب فرمایا نوح (علیہ السلام) اور آپ کے ساتھیوں کو ہم نے بچالیا واغرقنا الذین کذبو بایتنا اور ہماری آیات کو جھٹلانے والوں کو ہم نے پانی میں غرق کردیا کیونکہ انھم کانو قوماً عمین بیشک وہ اندھے لوگ تھے اللہ تعالیٰ نے ساری قوم کو اندھا فرمایا اندھا ہونے سے مراد ظاہر آنکھوں کے اندھے نہیں بلکہ دل کے اندھے مراد ہے سورة حج میں ہے ” فانھا لاتعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور “ ان کی ظاہری آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ سینوں میں رکھے ہوئے دل اندھے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق اسی سورة کے آخر میں آرہا ہے وترھم ینظرون الیک وھم لایبصرون وہ آپ کی طرف تک رہے مگر آپ کو دیکھ نہیں پاتے ان کی دل کی بصیرت ختم ہوچکی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ بہت سے ملک ایسے ہیں جن پر شیطان چھاپا ہوا ہے اور ہمارے ممالک بھی اسی زمرہ میں آتے ہیں ہمیشہ ناشائستہ کام کرتے ہیں مگر مہلت ملتی رہتی ہے شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی ندی کے آگے بند باندھا ہوا ہو پھر جب وہ بند کسی حادثہ کے باعث ٹوٹ جائے یا لوگوں کو موت آجائے تو تمام لوگ سزا میں مبتلا ہوجاتے ہیں جب مہلت پوری ہوجاتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کسی نافرمان کو نہیں چھوڑتا ابوالحسن مورخ (رح) نے لکھا ہے کہ عباسی خلفاء میں بھی یہی خرابیاں پائی جاتی تھیں جس کی وجہ سے مسلمانوں کا ساڑھے چھ سو سالہ عظمت کا دور ختم ہوگیا عباسی دین کا دامن چھوڑ چکے تھے دولت کی حرص ، اقتدار کی خواہش ، لڑائی جھگڑا اور فتنہ فساد ان میں در آیا تھا ہر طرف باطل رسوم اور بدعات کا دور دورہ تھا ایسے حالات میں اللہ نے ان پر تاتاریوں کو مسلط کردیا وہاں سے مسلمانوں کا پائوں بحیثیت قوم پھسلا ہے اور یہ آج تک اپنے پائوں پر کھڑے نہیں ہوسکے اس وقت بھی یہ برائیاں قوم میں موجود ہیں ہر شخص کے دل میں اقتدار کی خواہش ہے ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت اکٹھی کرنے کا جنون سر پر سوار ہے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کو پھیلایا جارہا ہے اور اس طرح شیطانی کام کیے جارے ہیں انبیاء کے لائے ہوئے دین کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے قرآنی پروگرام کو فراموش کرچکے ہیں من حیث القوم دنیا کے مسلمان ذلت کا شکار ہیں تاہم انفرادی طور پر دین کی رمق باقی رہتی ہے مگر ان کی اقلیت سے معاشرہ تو نہیں بدلا جاسکتا انقلاب تو اسی صورت میں ممکن ہے کہ کم از کم ساٹھ فیصدی اچھے لوگ موجود ہوں جو دوسروں کو بھی راہ راست پر لے آئیں مگر قوم تو ساری کی ساری اندھی ہے دل میں بصیرت نہیں ہے اسی وجہ سے قوم نوح غرق ہو کر آنے والی نسلوں کے لیے باعث عبرت بنی مگر آج پھر دنیا کا وہی حال ہے۔
Top