Anwar-ul-Bayan - Maryam : 12
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ١ؕ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ
يٰيَحْيٰى : اے یحییٰ خُذِ : پکڑو (تھام لو) الْكِتٰبَ : کتاب بِقُوَّةٍ : مضبوطی سے وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دی الْحُكْمَ : نبوت۔ دانائی صَبِيًّا : بچپن سے
اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ لے لو اور ہم نے ان کو بچپن میں حکم دے دیا
حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے اوصاف حمیدہ و اخلاق عالیہ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوگئی اللہ تعالیٰ نے ان سے خطاب فرمایا (یَا یَحْیٰی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ ) اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ لے لو مفسرین نے فرمایا کہ اس سے توریت شریف مراد ہے چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد انبیاء بنی اسرائیل توریت شریف پر ہی عامل تھے جیسا کہ سورة مائدہ میں فرمایا ہے (یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا) (الآیۃ) لفظ بقوۃ میں خوب اچھی طرح یاد رکھنا بھی آگیا اور عمل کرنے کو بھی یہ لفظ شامل ہوگیا اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو حضرت زکریا (علیہ السلام) کے واسطہ سے خطاب فرمایا پھر فرمایا (وَاٰتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا) (اور ہم نے یحییٰ کو بچپن ہی کی حالت میں حکم عطا فرما دیا اور یہ ان کی خصوصیت ہے کیونکہ عموماً حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر ہوجانے پر نبوت دی جاتی تھی اگر اس قول کو لیا جائے کہ انھیں بچپن ہی میں نبوت دے دی گئی تھی تو پھر یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ (یَا یَحْیٰی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ ) کا خطاب حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ذریعہ ہوا۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے حکم سے فہم کتاب مراد ہے اور بعض حضرات نے حکم بمعنی حکمت اور بعض حضرات نے بمعنی فراست صادقہ لیا ہے۔ (ما ذکرہ صاحب الروح ص 72 ج 16)
Top