Anwar-ul-Bayan - Al-Muminoon : 8
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِاَمٰنٰتِهِمْ : اپنی امانتیں وَعَهْدِهِمْ : اور اپنے عہد رٰعُوْنَ : رعایت کرنے والے
اور جو لوگ اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت کرنے والے ہیں
اہل ایمان کا پانچواں اور چھٹا وصف بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ ) (اور جو لوگ اپنی امتوں اور عہدوں کی رعایت کرنے والے ہیں) اس میں امانتوں کی حفاظت کا اور جو کوئی عہد کرلیا جائے اس کی حفاظت کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان دونوں کی رعایت اور حفاظت کو مومنین کی صفات خاصہ میں شمار فرمایا ہے۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا ہے کہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا ہو اور یوں نہ فرمایا ہو کہ (اَلاَ لاَ اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَ لاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَّ عَھْدَلَہٗ ) (خبر دار اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانتدار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا نہیں) ۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 15) اللہ تعالیٰ شانہٗ کے جو اوامرو نواہی ہیں ان کے متعلق جو شرعی ذمہ داریاں ہیں ان کا پورا کرنا فرائض و واجبات کا احترام کرنا اور محرمات و مکروہات سے بچنا یہ سب امانتوں کی حفاظت میں داخل ہے۔ اسی طرح بندوں کی جو امانتیں ہیں خواہ مالی امانت ہو یا کسی بات کی امانت ہو کسی بھی زار کی امانت ہو ان سب کی رعایت کرنا لازم ہے مالوں کی ادائیگی کو کچھ لوگ امانت داری سمجھتے ہیں لیکن عام طور سے دوسری چیزوں میں امانت داری نہیں سمجھتے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ مجلسیں امانت کے ساتھ ہیں۔ (یعنی مجلسوں کی بات آگے نہ بڑھائی جائے) ہاں اگر کسی مجلس میں حرام طریقے پر کسی کا خون کرنے یا زنا کرنے یا ناحق کسی کا مال لے لینے کا مشورہ کیا تو ان چیزوں کو آگے بڑھا دیں۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جب کوئی شخص بات کہہ دے پھر ادھر ادھر متوجہ ہو (کہ کسی نے سنا تو نہیں) تو یہ بات امانت ہے۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد) رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے کہ یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے جس میں وہ تجھے سچا سمجھ رہا ہو اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح) ایک حدیث میں ارشاد ہے ان المستشار موتمن (بلاشبہ جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے) یعنی مشورہ لینے والے کو وہی مشورہ دے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ (رواہ الترمذی) امانت داری بہت بڑی صفت ہے خیانت منافقوں کا کام ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرے۔ (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے تو خلاف کرے۔ (3) اور اگر اس کے پاس امانت رکھ دی جائے تو خیانت کرے۔ (رواہ مسلم) امانتوں کی حفاظت کے ساتھ عہد کی حفاظت کو بھی مومنین کی صفات خاص میں شمار فرمایا ہے مومن بندوں کا اللہ تعالیٰ سے عہد ہے کہ اس کے فرمان کے مطابق چلیں گے تمام اعمال و احوال میں اس کا خیال رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان برادر ہو کر رہیں اور نافرمانی نہ کریں اور بندوں سے جو کوئی معاہدہ ہوجائے کسی بات کا وعدہ کرلیں تو اس کو پورا کریں بشرطیکہ گناہ کا معاہدہ نہ ہو۔ بہت سے لوگ قرض لے لیتے ہیں اور ادائیگی کی تاریخ مقرر کردیتے ہیں پھر تاریخ آجانے پر ادائیگی کا انتظام نہیں کرتے بلکہ انتظام ہوتے ہوئے بھی ٹالتے ہیں یہ سب بد عہدی میں آتا ہے، اور اس کے علاوہ بہت سی صورتیں ہیں جو روز مرہ پیش آتی رہتی ہیں، جن لوگوں کا دینی مزاج نہیں ہوتا وہ عہد اور وعدہ کی خلاف ورزی کو کوئی وزن نہیں دیتے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس میں چار چیزیں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا، اور جس کے اندر ان میں سے ایک خصلت ہوگی اس کے اندر منافقت کی ایک خصلت شمار ہوگی وہ چار خصلتیں یہ ہیں۔ (1) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے (2) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (3) جب معاہدہ کرے تو دھوکہ دے (4) جب جھگڑا کرے تو گالیاں بکے۔ (رواہ البخاری و مسلم) حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دیدو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (1) جب بات کرو تو سچ بولو۔ (2) وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3) جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو ادا کرو۔ (4) اپنی شرم کی جگہوں کو محفوظ رکھو۔ (5) اپنی آنکھوں کو نیچے رکھو۔ (یعنی کسی جگہ ناجائز نظر نہ ڈالے۔ ) (6) اور اپنے ہاتھوں کو (بیجا استعمال کرنے سے) روکے رکھو۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ 415)
Top