Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 8
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِاَمٰنٰتِهِمْ : اپنی امانتیں وَعَهْدِهِمْ : اور اپنے عہد رٰعُوْنَ : رعایت کرنے والے
اور جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں
والذین ھم لامنتھم وعھدھم اعوان (8) امانت اور عمود کی حفاظت امانات، سے مراد وہ تمام امانتیں بھی ہیں جو ہمارے رب نے قوتوں اور صلاحیتوں، فرئاض اور ذمہ داریوں کی شکل میں یا انعامات و افضال اور اموال و اولاد کی صورت میں ہمارے حوالہ کی ہیں … اور روہ امانتیں بھی اس میں داخل ہیں جو کسی نے ہمارے پاس محفوظ کی ہوں یا ارزوئے حقوق ان کی ادائیگی کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہو۔ اسی طرح عہد میں وہ تمام عہد و میثاق بھی داخل ہیں جو ہمارے رب نے ہماری فطرت سے عالم غیب میں لئے ہیں یا اپنے نبیوں کے واسطہ سے، اپنی شریعت کی شکل میں، اس دنیا میں، لئے ہیں۔ علی ہذا القیاس وہ تمام عہد و ماثاق بھی اس میں داخل ہیں جو ہم نے اپنی فطرت یا انبیاء کے واسطہ سے اپنے رب سے کئے ہیں ای کسی جماعت یا فرد سے اس دنیا میں کئے ہیں، خواہ وہ قولاً و تحریراً عمل میں آئے ہوں یا ہر شائستہ سوسائٹی میں بغیر کسی تحریر و اقرار کے سمجھے اور مانے جاتے ہوں۔ فرمایا کہ ہمارے یہ بندے ان تمام امانات اور ان تمام عہود و مواثیق کا پاس ولحاظ رکھنے والے ہیں۔ نہ اپنے رب کے معاملہ میں خائن اور غدار ہیں نہ اس کے بندوں کیساتھ بےوفائی اور عہد شکنی کرنے والے ہیں۔ ان دو لفظوں کے اندر وہ تمام شرعی و اخلاقی، قانونی اور عرفی ذمہ داریاں آگئیں جن کا احترام ہر شریعت میں مطلوب رہا ہے۔ یہاں یہ اوپر کی باتوں کے بعد ایک جامع بات کی حیثیت سے مذکور ہوئی ہے اور درحقیقت اسی اجمال کی تفصیل ہے جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہے۔ حکمت دین کا ایک نکتہ یہاں حکمت دین کا یہ نکتہ نگاہ میں رہے کہ نماز ہی ان تمام امانات و عہود کی اصل محافظ ہے۔ نماز خود بھی، جیسا کہ تفسیر سورة بقرہ میں ہم واضح کرچکے ہیں، بندے کا اپنے رب کے ساتھ عہد و میثاق ہے جس کی تجدید ہر بندہ مومن دن رات میں کم از کم پانچ مرتبہ کرتا رہتا ہے اور یہ ان تمام عہود و موایں اور امانات و فرائض کی یاد دہانی بھی ہے جن کی ذمہ داری بندے پر عائد ہوتی ہے۔ ان مسائل پر ہم اس کتاب میں بھی موزوں مقامات میں بحث کر رہے ہیں اور خاص نماز کے اسرار و حقائق پر حقیقت نماز کے عنوان سے ہم نے ایک رسالہ بھی لکھا ہے۔ تفصیل کے طالب اس کو پڑھیں۔
Top