Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 8
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِاَمٰنٰتِهِمْ : اپنی امانتیں وَعَهْدِهِمْ : اور اپنے عہد رٰعُوْنَ : رعایت کرنے والے
اور جو امانتوں اوراقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں
مسئلہ نمبر 8 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : و الذین ھم لامنتھم وعھدھم راعون۔ والذین ھم علیٰ صلوتھم یحافظون۔ جمہور نے لاماناتھم پڑھا ہے جمع کے ساتھ۔ ابن کثیر نے مفرد پڑھا ہے۔ امانت اور عہد دین کے ہر قول اور عمل کو جامع ہے جس کو انسان اٹھاتا ہے۔ یہ لوگوں کی معاشرت، وعدہ وغیرہ کو عام ہے۔ اس کی انتہاء یہ ہے کہ عہد و پیمان کی پاسداری اور حفاطت کی جائے۔ امانت عہد سے اعم ہے۔ ہر عہد امانت ہوتا ہے اس میں قول، فعل اور عقیدہ سب شامل ہیں۔ مسئلہ نمبر 9 ۔ جمہور نے صلواتھم پڑھا ہے۔ حمزہ اور کسائی نے صلاتھم پڑھا ہے۔ یہ افراد اسم جنس ہے جو جمع کے معنی میں ہے۔ نماز کی محافظت سے مراد نماز کا قائم کرنا ہے اور اول وقت میں ادائیگی کی کوشش کرنا ہے اس کے رکوع و سجود کو مکمل کرنا ہے۔ سورة بقرہ میں تفصیلا گزر چکا ہے۔ پھر فرمایا : اولئک ھم الوارثون۔ ان آیات میں جو ذکر کیا گیا ہے اس پر جس نے عمل کیا وہ وارث ہیں یعنی جنت میں دوزخیوں کے منازل کے یہ وارث ہیں۔ حدیث میں ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم سے مروی ہے کہ ” اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لئے جنت میں ایک مسکن بنایا ہے اور ایک مسکن دوزخ میں ہے۔ مومنین اپنی منازل کو لے لیں گے اور کفار کی منازل کے وارث ہوں گے اور کفار اپنی دوزخ کی منازل میں ہوں گے۔ (المحرر الوجیز، جلد 4، صفحہ 137) ۔ اس حدیث کا مفہوم ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے فرمایا نبی پاک ﷺ نے فرمایا : تم میں ہر ایک کی دو منزلیں ہیں ایک جنت میں اور ایک منزل آگ میں جب کوئی شخص مرتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوتا ہے تو اہل جنت اس کی منزل کے وارث ہوتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ا ولئک ھم الوارثون۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، صفۃ الجنۃ، صفحہ 332) اس کی سند صحیح ہے یہ بھی احتمال ہے کہ جنت کے حصول کو وراثہ کہا ہو اس کے حصول کی حیثیت سے جب کہ دوسروں کو وہ نہیں ملی۔ یہ دو وجوہ پر اسم استعار ہے۔ فردوس جنت کی بلند، اوسط اور افضل جگہ کا نام ہے۔ اس حدیث کو ربیع بنت نضرام حارثہ سے روایت کیا ہے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے اور صحیح مسلم میں ہے۔ ” جب اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو وہ جنت وسط اور جنت کا اعلیٰ درجہ ہے اس سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، سورة مومنون، جلد 2، صفحہ 147) ۔ ابوحاتم محمد بن حیان نے کہا نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : فانہ اوسط الجنۃ۔ یعنی وہ عرض کے اعتبار سے جنت کے وسط میں ہے اور وہ جنت کا اعلیٰ ہے یعنی بلند ترین جگہ ہے۔ یہ تمام حضرات ابوہریرہ ؓ کے قول کی تصحیح کرتے ہیں۔ فردوس جنت کا پہاڑ ہے جس سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں۔ مجاہد کے قول میں یہ رومی لفظ ہے عربی میں استعمال کیا گیا ہے۔ بعض نے کہا : یہ فارسی لفظ ہے عربی بنالیا گیا ہے۔ بعض نے کہا : حبشہ کی زبان کا لفظ ہے۔ اگر یہ ثابت ہو تو یہ تمام زبانوں کا لفظ ہوگا۔ ضحاک نے کہا : یہ عربی لفظ ہے اس کا مطلب الکرم ہے۔ عرب کروم (انگور کی بیلیں) کو قرادیس کہتے ہیں۔ ھم فیھا خٰلدون۔ جنت کے معنی پر مونث استعمال ہوا۔
Top