Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 8
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ جو هُمْ : وہ لِاَمٰنٰتِهِمْ : اپنی امانتیں وَعَهْدِهِمْ : اور اپنے عہد رٰعُوْنَ : رعایت کرنے والے
اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا لحاظ رکھنے والے ہیں
(5) مومن کی پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ دیانت و امانت کا پیکر ہوتا ہے۔ یعنی وہ امانتوں کی ادائیگی کی حفاظت اور لحاظ میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتا اور ہر معاملے میں نہایت امانت دار ثابت ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امانت کے بجائے ” امانات “ کہہ کر امانت کے مفہوم کو زندگی کے تمام معاملات تک وسیع کردیا ہے جس میں ہر طرح کی امانتیں آجاتی ہیں۔ عام طور پر امانت کا مفہوم صرف یہ سمجھاجاتا ہے کہ اگر کسی نے کسی دوسرے شخص پر اعتماد اور بھروسہ کرکے کوئی چیز یا رقم اس کے حوالے کردی اور طلب کرنے پر واپس مل گئی تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے نہایت دیانت سے اس کی امانت واپس کردی۔ لیکن قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امانت کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے جو زندگی کے ہر معاملے پر چھایا ہوا ہے۔ ٭ اگر کسی شخص نے کسی سے کوئی راز اور بھید کی بات کہی اور اس نے اس بات کو راز ہی رکھا اور کسی پر ظاہر نہ کیا کہا جائے گا کہ اس نے دیانت و امانت کا ثبوت پیش کیا۔ ٭کسی نے ایک مجلس میں ایسی بات سنی جس کو اہل مجلس ظاہر کرنا نہیں چاہتے تو اس بات کو سن کر دوسروں سے نہ کہنا اور اس کو راز رکھنا بھی امانت ہے۔ ٭ایک شخص نے کسی کو معاوضہ دے کر کوئی کام سپرد کیا تو یہ وقت بھی ایک امانت ہے جس کو دیانت داری سے اسی مقصد میں صرف ہونا چاہیے جس کے لئے معاوضہ ادا کیا گیا ہے۔ اس وقت کو ضائع کرنا ‘ اس میں سستی اور کاہلی کرنا بددیانتی کہلائے گی۔ مومن کی شان اور صفت یہ ہے کہ وہ زندگی کے ہر معاملہ میں دیانت و امانت کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس معاشرہ میں دیانت وامانت سے کام کئے جاتے ہیں وہ ایک بہترین معاشرہ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمی بھی ہر معاملہ میں دیانت وامانت کے ہر پہلو کا لحاظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (6) کامیاب اہل ایمان کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے وعدے ‘ عہد اور معاہدوں کو پورا کرتے ہیں۔ یعنی ہر مومن کی شرعی اور اخلاقی طور پر یہ ذمہ داری ہے کہ اس نے جس سے جو بھی وعدہ کیا ہوا اس کو ہر حال میں پورا کیا جائے۔ انسان نے انسان سے وعدہ کیا ہو یا انسان نے اپنے اللہ سے وعدہ کیا ہو ہر عہد و معاہدہ کو پورا کرنا لازمی اور ضروری ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان کو فاسق و گناہ گار قرار دیا ہے جو قرآن کریم پڑھ کر بھی اس کی ہدایت سے محروم رہتے ہیں۔ ان فاسقین کے متعلق فرمایا ہے کہ جب بھی اللہ سے عہد و معاہدہ کرتے ہیں تو اس کو توڑ ڈالتے ہیں (بقرہ) اسی لئے وہ گمراہی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے منافق کی علامتیں بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ جب منافق کسی سے وعدہ کرتا ہے تو وہ اسے پورا نہیں کرتا۔ قرآن کریم اور سنت سے معلوم ہوا کہ عہد و معاہدوں کو پورا کرنا ایک مومن کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ آپ نے جب بھی کسی سے وعدہ فرمایا تو اس کو پورا کیا۔ (7) مومنین کی ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی نمازوں کی ہر طرح حفاظت کرتے ہیں علمائے مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے پانچ وقت کی فرض نمازیں مراد ہیں۔ یعنی وہ مومنین اپنی نمازوں کو ان کے پورے آداب ‘ وقت کی پابندی سے ان کے مستحب وقت پر ادا کرکے دلی اور روحانی سکون حاصل کرتے ہیں۔ نمازوں کا ادب و احترام یہ ہے کہ پورے آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے سنت کے مطابق ٹھیک طرح وضو کیا جائے۔ جسم اور کپڑوں کی صفائی ‘ ستھرائی اور پاکیزگی کا خیال رکھا جائے۔ نمازوں کو نہایت سکون و اطمینان سے پڑھا جائے۔ جلدی جلدی پڑھ کر نمازوں کی روح کو ضائع نہ کیا جائے۔ نہایت خشوع و خضوع ‘ عاجزی و انکساری ‘ ادب واحترام سے نمازوں کو پورا کیا جائے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جو صاحبان ایمان حقوق اللہ اور حقوق العباد پورا کرنے کی سعادت حاصل کرتے اور مذکورہ سات صفات کو اپنے اندر پیدا کرتے ہیں وہ نہ صرف دنیا و آخرت کی ہر کامیابی اور فلاح و خیر حاصل کریں گے بلکہ اس جنت الفردوس کی ابدی راحتوں کے وارثو مستحق ہوں گے جو انہیں دے کر واپس نہیں لی جائینگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ انہیں حاصل رہیں گی۔ یہی وہ مومن ہیں جن کی زندگیاں اور بہترین اعمال حسن عمل اور اعلی کردار کی قابل تقلید مثالیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اہل ایمان کی یہ تمام خوبیاں عطا فرما کر دین و دنیا کی کامیابیاں عطا فرمائے۔ آمین
Top