Anwar-ul-Bayan - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور وہ لوگ ہیں جو یوں کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہم کو متقیوں کا امام بنا دیجیے،
عباد الرحمن کی تیرھویں صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا (وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ ) (اے ہمارے رب ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما) یعنی انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے اس کا مفہوم بہت عام ہے بیویاں اور بچے سکھ سے رہیں اور آرام سے جئیں فرمانبر دار بھی ہوں نیک بھی ہوں دین دار بھی ہوں انہیں دیکھ دیکھ کر دل خوش ہوتا ہو یہ سب آنکھوں کی ٹھنڈک میں شامل ہے۔ جو بندے نیک ہوتے ہیں انہیں اپنی ازواج و اولاد کی دینداری کی بھی فکر رہتی ہے وہ جہاں ان کے کھانے پینے کا فکر کرتے ہیں وہاں انہیں دین سکھانے اور ان کی دینی تربیت کا بھی اہتمام کرتے ہیں اگر بیوی بچے جسمانی اعتبار سے صحت مند ہوں اور انہیں کھانے پینے کو خوب ملتا ہو اور اللہ تعالیٰ کے اور ماں باپ کے نا فرماں ہوں تو آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں بنتے بلکہ و بال بن جاتے ہیں۔ جب اولاد کو دین پر ڈالیں گے اور انہیں متقی بنائیں گے اور زندگی بھر انہیں دین پر چلاتے رہیں گے تو ظاہر ہے کہ اس طرح متقیوں کے امام اور پیشوا بنے رہیں گے۔ عباد الرحمن یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ (وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِِمَامًا) (اور ہمیں متقیوں کا پیشوا بنا دے) کوئی شخص متقیوں کا پیشوا اس وقت بن سکتا ہے جبکہ خود بھی متقی ہو دعا کا انحصار اسی پر نہیں ہے کہ ازواج اور اولاد ہی متقی ہوں انسان خود بھی متقی بنے جب انسان خود متقی ہوگا اور اپنے تقوے کو وہ جگہ کام میں لائے گا تو اس کی ازواج و اولاد اور احباب و اصحاب بھی متاثر ہوں گے اور اس کی دیکھا دیکھی تقوے پر آئیں گے اپنے خاندان اور کنبہ کے علاوہ باہر کے لوگوں کا بھی پیشوا بننے کی سعادت حاصل ہوگی معلوم ہوا کہ تقوے کے ساتھ دینی پیشوا بننے کی خواہش رکھنا اور اس کے لیے دعا کرنا شرعاً مذموم نہیں بلکہ محمود ہے جب کسی میں تقویٰ اور اخلاص ہوگا تو اس کی مشیخت اور ریاست اور امامت اس کے نفس میں تکبر پیدا نہ ہونے دے گی۔
Top