Al-Qurtubi - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور وہ جو (خدا سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا
( والذین یقولون۔۔۔۔۔۔ ) وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ ضحاک نے کہا : وہ تیری اطاعت کرتے ہوئے۔ اس آیت میں بچے کی دعا جواز ہے، بحث پہلے گزر چکی ہے۔ ذریۃ واحد اور جمع ہے، واحد کے لیے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّـبَۃً ج ( آل عمران : 38) فَھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ وَلِیًّا۔ ( مریم : 5) جمع کے لیے یہ آیت ہے : ذریۃ صعفا (النسائ : 9) سورة بقرہ میں اس کا اشتقاق مفصل گزر چکا ہے۔ ابن کثیر، ابن عامر اور حضرت حسن بصری نے وذریاتنا قرأت کی ہے۔ ابو عمرو، حمزہ، کسائی، طلحہ اور عیسیٰ نے ذریتنا قرأت کی ہے۔ قرۃ عین مفعول کے طور پر منصوب ہے یعنی ہماری آنکھوں کے لیے ٹھنڈک۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح نبی کریم ﷺ نے حضرت انس ؓ سے فرمایا : اللھم اکثر مالہ ولدہ وبارک لہ فیہ اے اللہ اس کے مال اور اس کی اولاد کو زیادہ کر دے اور اس کے لیے اس میں برکت رکھ دے۔ اس کی وضاحت آل عمران اور سورة مریم میں گزر چکی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کے لیے اس کے مال اور اس کی اولاد میں برکت رکھتی جاتی ہے تو اس کے اہل اور عیال کی وجہ سے اس کی آنکھ ٹھنڈی ہوتی ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس اس کی بیوی ہو اس بیوی میں اس کی آرزوئیں جمع ہوجاتی ہیں۔ وہ جمال ہو، عفت ہو اور پاک دامنی ہو یا اس کے پاس اولاد ہو جو طاعت پر دوام اختیار کریں، دین اور دنیا کے امور میں اس کے معاون ہوں۔ وہ کسی اور کی بیوی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی کی اولاد کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کی آنکھ ملاحظہ سے سکون پاتی ہے اس کی آنکھ اس کی طرف ممتد نہیں ہوتی جس کی طرف وہ دیکھتی ہے۔ یہی آنکھ کی ٹھنڈک ہے اور نفس کا سکون ہے۔ قرہ کے لفظ کو واحد ذکر کیا کیونکہ یہ مصدر ہے تو کہتا ہے۔ قرت عینک قرۃ، قرۃ العین کے بارے میں یہ احتمال ہے کہ وہ قرار سے مشتق ہو۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وہ قر سے مشتق ہو، یہ زیادہ مشہور ہے۔ قر کا معنی ٹھنڈک ہے کیونکہ عرب گرمی سے اذیت حاصل کرتے اور ٹھنڈک سے راحت حاصل کرتے نیز خوشی کا آنسو ٹھنڈ اور غم کا آنسو گرم ہوتا ہے، اسی وجہ سے کہا جاتا ہے : اقر اللہ عینک اللہ تعالیٰ تیری آنکھ کو ٹھنڈاکرے اسخن اللہ عین عدوک اللہ تعالیٰ تیرے دشمن کی آنکھ گرم کرے۔ شاعر نے کہا : فکم سخنت بالامس عین قریرہ و قرت عیون دمعھا الیوم ساکب گزشتہ کل میں کتنی ہی ٹھنڈی آنکھیں گرم ہوئیں اور کتنی ہی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں آج جن کے آنسو بہہ رہے ہیں۔ واجلعنا للمتقین اماماً ، امام کا معنی مقتدیٰ ہے جو بھلائی میں ہماری رہنمائی کرتا ہے یہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب داعی متقی ہو یہی داعی کا مقصود ہوتا ہے، موطا امام مالک میں ہے : انکم الرھط ائمہ یقتدی بکم اے جماعت ! تم امام ہو تمہاری اقتدا کی جاتی ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ اپنی دعا میں عرض کیا کرتے تھے : اے اللہ ! ہمیں متقین کا امام بنا دے۔ اماما کہا ائمہ نہیں کہا یعنی جمع کا صیغہ ذکر نہیں کیا کیونکہ امام مصدر سے یہ جملہ بولا جاتا ہے : ام القوم فلان اماما جس طرح صیام اور قیام مصدر ہے۔ بعض نے کہا : ائمہ کا ارادہ کیا جس طرح کوئی کہنے والا کہتا ہے : امیرنا ھولاء یہاں امیر سے مراد امراء ہے۔ شاعرنے کہا : یا عاذلاتی لا تزدن ملا متی ان العواذل لسن لی بامیر اے مجھے ملامت کرنے والیو ! مجھے ملامت کرنے میں اضافہ نہ کرو کیونکہ ملامت کرنے والیاں میری امیر نہیں۔ اس شعر میں امیر، امراء کے معنی میں ہے۔ قشیری ابو القاسم صوفیہ کے شیخ کہا کرتے تھے : امام دعا کے ساتھ ہوتی ہے دعویٰ کے ساتھ نہیں ہوتی یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور اس کی جانب سے آسان کرنے اور اس کے احسان کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ جو انسان اپنے لیے اس کا دعویٰ کرے۔ حضرت ابراہیم نخعی نے کہا : انہوں نے ریاست کو طلب نہیں کیا بلکہ وہ دین میں مقتدی تھے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : ہمیں ہدایت کے ائمہ بنا دے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَ جَعَلْنٰـہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا “ ( الانبیائ : 37) محکول نے کہا : تقویٰ میں ہمیں امام بنا دے متقی ہماری اقتدار کریں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ کلام قلب سے تعلق رکھتی ہے اس کا مجاز ہے : راجعل المتقین لنا اماما : یہ مجاہد کا قول ہے، پہلا قول زیادہ نمایاں ہے۔ حضرت ابن عباس اور مکحول کا قول بھی اسی طرف راجع ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ دین میں سرداری طلب کرنا مستحب ہے اما ما لفظ کے اعتبار سے واحد ہے اور جمع یہ دلالت کرتا ہے کیونکہ یہ مصدر ہے جس طرح قیام ہے۔ اخفش نے کہا : امام، ام کی جمع ہے ام یوم سے مشتق ہے یہ فعال کی جمع ہے جس طرح صاحب کی صحاب اور قائم کی جمع قیام ہے۔ اولیک یجزون الغرفۃ بما صبروا اولیک، و عباد الرحمن کی خبر ہے : یہ زجا ج کا قول ہے جیسے پہلے گزر چکا ہے اس بارے میں جو بھی قول کیے گئے ہیں ان میں سے سب سے اچھا قول ہے، مبتداء اور خبر میں جو کچھ ہے وہ ایسے اوصاف ہیں جن سے اپنے آپ کو آراستہ کرنا اور جن سے اپنے آپ کو پاک کرنا ہے وہ گیارہ اوصاف ہیں (1) تواضع (2) حلم (3) تہجد (4) خوف (5) اسراف اور اقتار کو ترک کرنا (6) شرک، زنا اور قتل سے بچنا (7) توبہ کرنا (8) جھوٹ سے اجتناب کرنا (9) زیادتی کرنے والے کو معاف کرنا (10) نصیحتوں کو قبول کرنا (11) اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آہ زاری کرنا۔ الغرفۃ بلند درجہ۔ یہ جنت کی منازل میں سے سب سے بلند درجہ ہے اور سب سے افضل درجہ ہے جس طرح بالا خانہ دنیا کے مسکینوں میں سے سب سے اعلیٰ مسکن ہے : ابن شجرہ نے یہ بیان کیا ہے۔ ضحاک نے کہا : غرقۃ سے مراد جنت ہے بما صبروا اپنے رب کے حکم پر صبر کرنے کے باعث اور اپنے نبی کی طاعت کے باعث۔ محمد بن علی بن حسین نے کہا : انہوں نے دنیا میں فقر وفاقہ پر جو صبر کیا اسی کے باعث۔ ضحاک نے کہا : انہوں نے شہوات پر جو صبر کیا۔ ویلقون فیھا تحیۃ وسلم ا، ابو بکر، مفضل، اعمش، یحییٰ ، حمزہ، کسائی اور خلف نے ویلقون تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے، فراء نے اسے پسند کیا ہے کیونکہ عرب کہتے ہیں : فلان یتلقی بالسلام و بالتحیۃ وبالخیر وہ بہت کم فلان یلقی بالسلامۃ کہتے ہیں باق قراء نے ویلقون پڑھا ہے : اسے ابو عبید اور ابو حاتم نے پسند کیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ولقھم نضرۃ وسرورا۔ ( الانسان) ابو جعفر نحاس نے کہا : فراء جس طرف گئے ہیں اور جسے اختیار کیا وہ ہے غلط ہے کیونکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں اگر یہ یلقون ہو تو لغت عرب میں یہ تحیۃ اور اسلام کے لیے ہوتا ہے انہوں نے کہا جس طرح قول کیا جاتا ہے : فلان یتلقی بالسلام و بالخیر اس باب میں جو کچھ انہوں نے کہا وہ عجیب و غریب ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں : یتلقی جب کہ آیت یلقون ہے دونوں میں فرق واضح ہے کیونکہ جملہ کہا جاتا ہے : فلان یتلقی بالخیر، باء کا حذف جائز نہیں تو یہ اس کے مشابہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ اس سے بڑھ کر تعجب کی بات یہ ہے کہ قرآن حکیم میں ولقھم نضرۃ وسرورا۔ ہے اسے کسی اور لفظ کے ساتھ پڑھنا جائز نہیں۔ یہ امر کی وضاحت کرتا ہے کہ اولیٰ اس کے برعکس ہے جو انہوں نے کہا تحیۃ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور سلام ملائکہ کی جانب سے ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تحیۃ سے مراد دائمی بقاء اور ملک عظیم ہے۔ اظہر یہ ہے کہ دونوں ایک ہی معنی میں ہیں اور دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : ” تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ ج “ (الاحزاب : 44) خلدین حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے فیھا حسنت مستقرا ومقاما۔ قل ما یعبوا لکم ربی لولا دعائو کم یہ مشکل آیت ہے۔ ملحدہ نے اس سے استدلال کیا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : ما عبات لفلان میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی، یعنی اس کا میرے ہاں کوئی وزن، کوئی قدر نہ تھی۔ یعما کی اصل عما ہے جس کا معنی بوجھ ہے۔ شاعر کا قول ہے : کان بصدرہ وبجانبیہ عبیرا باک یعبوہ عروس وہ بعض کو بعض پر رکھتا ہے، عبا کا معنی بھاری بوجھ ہے اس کی جمع اعباء ہے۔ عبا مصدر ہے ما استفہامیہ ہے زجاج کے کلام کے بیچ میں یہ ظاہر ہوا اور فراء نے اس کی تصریح بیان کی۔ یہ کوئی بعید نہیں کہ وہ نافید ہو کیونکہ جب تو نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ استفہام ہے تو یہ نفی ہے جو استفہام کی جگہ واقع ہوا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” ھل جزاء الاحسان الا الاحسان۔ “ ( الرحمن) ابن شجری نے کہا : میرے نزدیک قول کی حقیقت یہ ہے کہ ما محل نصب میں ہے : تقدیر کلام یہ ہوگی : ای عب یعبابکم وہ کیسی پرواہ ہے جو میرا رب تمہارے بارے میں کرے اگر اس کی تمہیں دعوت نہ کہ تم اس کی عبادت کرو، اس قول کی بناء پر مصدر اپنے مفعول کی طرف مضاف ہے : یہ فراء کا پسندیدہ قول ہے اس کا فاعل مخدوف ہے اور لولا کا جواب مخدوف ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں مخدوف ہے :” وَلَوْ اَنَّ قُرْاٰناً سُیِّرَتْ بِہِ الْجِبَالُ “ (الرعد : 31) اس کی تقدیر ہوگی لم یعباکم۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :” وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔ “ ( الذاریات) خطاب تمام لوگوں کو ہے گویا ان میں سے قریش سے فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہاری کیا پرواہ کرے گا اگر تم نے اس کی عبادت نہ کی ہوگی، یہی تو وہ امر ہے جس کی وجہ اللہ تعالیٰ انسان کی پرواہ کرتا۔ ابن زبیر اور دوسروں کی قرأت اس کی تائید کرتی ہے۔ فقد کذبتم تمام لوگوں کو اس چیز کے ساتھ خطاب ہے جس کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے پھر قریش سے فرماتا ہے : تم نے جھٹلایا اور تم نے اس کی عبادت نہ کی عنقریب یہی تکذیب دائمی عذاب کا سبب ہوگی۔ نقاش اور دوسرے علماء نے کہا : معنی ہے اگر مشکلات میں تم اس کی بارگاہ میں مدد طلب نہ کرتے، اس کی وضاحت ہے : ” فَاِذَا رَکِبُوْا فِی الْفُلْکِ دَعَوُا اللہ مُخْلِصِینَ “ ( العنکبوت : 65 ) ایک قول یہ کیا گیا ہے : اسے تمہارے گناہ بخشنے کا کیا مسئلہ تھا اور نہ ہی وہ امر جو اس کے نزدیک عظیم تھا : لولا دعاو کم اگر اس کے ساتھ معبودوں اور شرکاء کی عبادت نہ ہوتی۔ اس کی وضاحت اس آیت میں ہے :” مَا یَفْعَلُ اللہ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ط “ (النسا : 147) یہ ضحاک کا قول ہے۔ ولید بن ابی الولید نے کہا : مجھے اس آیت کے بارے میں یہ تعبیر پہنچتی ہے میں نے تمہیں پیدا کیا اور نہ ہی مجھے تم سے کوئی غرض تھی مگر یہ کہ تم مجھ سے سوال کرو اور میں تمہیں بخش دوں اور تمہیں عطاء کر دوں۔ وہب بن منبہ نے روایت بیان کی ہے کہ تورات میں ہے : اے انسان ! میری عزت کی قسم میں نے تجھے پیدار نہیں کیا کہ میں تجھ سے نفع حاصل کروں میں نے تجھے اس لیے پیدا کیا ہے کہ تو مجھ سے نفع حاصل کرے ہر شے کا بدل مجھ سے لے میں ہر چیز سے تیرے لیے بہتر ہوں۔ ابن جنبی نے کہا : حضرت ابن زبیر اور حضرت ابن عباس ؓ نے یوں قرأت کی : فقد کذب الکافرون زاہروی اور نحاس نے کہا : یہ حضرت ابن مسعود کی قرأت ہے اور یہ تفسیر کے اسلوب میں ہے جو کذبتم میں تاء اور میم کی تفسیر ہے۔ قتبی اور فارسی اس طرف گئے ہیں کہ دعا عافل کی طرف مضاف ہے اور مفعول مخدوف ہے۔ اصل کلام یہ ہے لولا دعاء کم آلھۃ من دونہ، لولا کا جواب محذوف ہے اس صورت میں تقدیر ہوگئی : لم یعذبکم۔ لولا دعاء کم آلھۃ کی مثل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :” اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہ عِبَادٌ اَمْثَالُکُمْ “ (الاعراف : 194) فقد کذبتم جس امر کی تمہیں دعوت دی گئی اس کو تم نے جھٹلایا، یہ پہلے قول کی بناء پر ہے۔ اور دوسرے قول کی بناء پر یہ ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی واحدنیت کو جھٹلایا۔ فسوف یکون لزاماً یعنی تمہاری تکذیب تم کو لازم ہوگی۔ معنی ہے عنقریب تکذیب کی جزاء ہوگی۔ جس طرح فرمایا :” ووجدوا ما عملوا حاضرا “ (الکہف : 49) انہوں نے جو کچھ کیا اس کی جزاء کو حاضرپایا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون۔ “ (الانفال) یعنی تم نے جو کفر کیا اس کی جزا چکھو۔ تکذیب کو مضمر کرنا اچھا ہے کیونکہ اس کا فعل پہلے مذکور ہوچکا ہے کیونکہ جب تو فعل کا ذکر کرے گا تو وہ اپنے لفظ کے ساتھ مصدر پر دال ہوگا۔ جس طرح فرمایا :” وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُم ْط “ (آل عمران : 110) یہاں ایمان محذوف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ “ (الزمر : 7) یہاں یرضی کا فاعل الشکر ہے۔ اس کی بےشمارمثلہ ہیں۔ جمہورمفسرین کی رائے یہ ہے کہ یہاں لزامر سے مراد وہ ہے جو غزوہ بدر کے موقع پر ان پر مصیبت نازل ہوئی : یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت ابی بن کعب، ابو مالک، مجاہد، مقاتل وغیرہ کا قول ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ سے روایت مروی ہے : بطشہ، دخان اور لزام گزر چکا۔ سورة خان میں اس کی مفصل وضاحت آئے گی ان شاء اللہ۔ ایک جماعت نے کہا : عذاب آخرت کی دھمکی ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ سے یہ بھی مروی ہے : لزام سے مراد جھٹلانا ہی ہے۔ یعنی اس سے توبہ کا انہیں موقع نہ دیا جائے گا۔ زہراوی نے اس کا ذکر کیا ہے (1) اس میں یوم بدر اور دوسرے عذاب داخل ہوجاتے ہیں جو ان کو لازم ہوں گے۔ ابو عبیدہ نے کہا : لزام سے مراد فیصلہ ہے یعنی عنقریب تمہارے مومنوں کے درمیان فیصلہ ہوگا۔ جمہور قراء لام کو کسرہ دیتے ہیں، ابو عبیدہ نے صخر کا یہ شعر پڑھا ہے : فاما ینجوا من خسف ارض فقد لقیا حتوفھما لزاما اگر وہ دونوں زمین کے دھنسنے سے نجات پا گئے ہیں تحقیق ان دونوں نے اپنی موتوں کو فیصلہ کن دیکھا ہے۔ لزاما اور ملازمہ دونوں ایک ہیں۔ طبری نے کہا : لزاما سے مراد ایسا عذاب ہے جو دائمی اور لازم ہے اور ایسی ہلاکت ہے جو فنا کرنے والی ہے جو تم ایک دوسرے کو لاحق کرتے ہو، جس طرح ابو ذئویب کا قول ہے : ففاجاہ بعادیۃ لزام کما یتفجر الحوض اللقیت اسے اچانک اس قول نے آ لیا جو اپنے قدموں پر دوڑتی ہے اور ایک دوسرے کو لا حق کرتی ہے جس طرح وہ حوض بہہ پڑتا ہے جس کے پتھر ٹوٹ جائیں۔ لزام سے مراد جس کا بعض بعض کی پیروی کرے۔ لقیف سے مراد جسکے پتھر ٹوٹ کر گر جائیں۔ نحاس نے کہا : ابو حاتم نے ابو زید سے کہا میں نے قغب ابو سمال کو پڑھتے ہوئے سنا : لزاما یعنی لام کو فتحہ دیا۔ ابو جعفر نے کہا : یہ لزمکا مصدر ہوگا اور کسرہ اولی ہے : یہ قتال اور مقاتلہ کی مثل ہے جس طرح انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں لام کے کسرہ پر اجماع کیا ہے : ” ولولا کلمۃ سبقت من ربک لگان لزاماوا اجل فسی۔ “ (طہٰ ) دوسرے علماء نے کہا : (1 ؎۔ المحرر الوجیز۔۔ ) لزام فتحہ کے ساتھ یہ لزم کا مصدر ہے جس طرح سلم سلاما ہے سلام سلامتی کے معنی میں ہے لزام فتحہ کے ساتھ ہو تو اس کا معنی لزوم ہے اور لزام کا معنی ملازمت ہے، دونوں قرائتوں میں مصدر، اسم فاعل کی جگہ واقع ہے لزام، ملازم کی جگہ واقع ہے اور لزام لازم کی جگہ واقع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآؤُکُمْ غَوْرًا “ (ملک : 30) اس میں غورا، غائر کے معنی میں ہے۔ نحاس نے کہا : یکون کے اسم میں فراء کا قول ہے، کہا : وہ مجہول ہوگا۔ یہ قول غلط ہے، کیونکہ مجہول کی خبر جملہ ہی ہوتی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” انہ من یتق و یصبر “ ( یوسف : 90) جس طرح نحویوں نے کہا : کان زید منطلق کان میں اسم مجہول ہوگا مبتداء اور خبر مجہول کی خبر ہوگی، تقدیر کلام یہ ہوگی کان الحدیث فاما ان یقال کان منطلقا کان میں اسم مجہول ہوگا۔ کسی ایک کو بھی ہم نہیں جانتے جس کے نزدیک یہ جائز ہو۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے، اسی سے مدد طلب کی جاتی ہے، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جو رب العالمین ہے۔
Top