Tafseer-e-Madani - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور جو اپنے رب کے حضور عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب عطا فرما دے ہمیں اپنی بیویوں اور اور اپنی اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور بنا دے ہمیں امام و پیشوا متقی اور پرہیزگاروں کا
93 فکر آخرت کی صفت محمود کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان کے اندر اپنے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال کی عاقبت کی فکر کی صفت محمود و مطلوب بھی پائی جاتی ہے۔ سو وہ بندگان خدا اپنے اہل و عیال کی آخرت کی بھی فکر کرتے ہیں اور ان کے لیے اپنے رب کے حضور دعائیں بھی کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما۔ یعنی ہماری بیویوں اور اولادوں کو ایسا صالح اور نیک بنا دے کہ وہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کا ذریعہ بن جائیں۔ کیونکہ ایک صالح اور حقیقت شناس انسان کے لئے دنیا سے بڑھ کر آخرت اور صورت سے بڑھ کر سیرت کی بہتری ہی موجب فرحت و سرور اور ذریعہ تسکین ہوسکتی ہے۔ سو خدائے رحمن کے یہ بندگان صدق و صفا اپنے اہل و عیال کی اصلاح و بہتری کی ذمہ داری سے بھی غفلت نہیں برتتے بلکہ اس کا بھی برابر خیال رکھتے ہیں۔ اور وہ ان کیلئے اپنے خالق ومالک کے حضور دست بدعا رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو راہ راست پر مستقیم رکھے۔ اور ان کو ایسی پاکیزہ زندگی عطا فرمائے جس سے وہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور ہوسکیں۔ اور اس طرح ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور انکے دل کے قرار کا ذریعہ بن سکیں۔ اللہ اپنی توفیق و عنایت سے اس سے سرفراز فرمائے ۔ آمین۔ 94 پرہیزگاروں کی امامت و پیشوائی اور ایک نہایت عبرت ناک واقعہ : سو اس سے پرہیزگاروں کی امامت و پیشوائی کی دعا و درخواست کا ایک عمدہ نمونہ سامنے آتا ہے۔ سو اس کا مطلب بھی عرض کیا جاتا ہے اور اس ضمن میں ایک نہایت ہی عبرتناک واقعہ بھی پیش کیا جاتا ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے رب کے حضور یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ تو ہمیں پرہیزگاروں کا امام و پیشوا بنادے۔ یعنی نیکیوں میں ہمیں اس قدر آگے بڑھنے کی توفیق وسعادت نصیب فرما کہ ہم پیشوائی کے درجے کو پہنچ جائیں اور لوگ ہماری اقتدا کریں۔ یہ دراصل منصب اور دنیاوی بلندی کی طلب نہیں بلکہ حقیقت میں یہ زیادہ سے زیادہ نیک بننے کی خواہش و درخواست ہے۔ اور یہ کہ جس جماعت اور معاشرے میں ہمیں رہنا سہنا ہو وہ متقی اور پرہیزگاروں پر مشتمل ہو۔ سو امامت و پیشوائی وہی مطلوب و مقصود اور ذریعہ نجات ہے جو متقی اور پرہیزگار لوگوں کی ہو کہ جو کوئی تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ میں ہمارے پیچھے چلا اور اس نے راہ حق میں ہماری پیروی کی اس کا اجر وثواب بھی ہم کو ملے گا۔ جیسا کہ مختلف نصوص میں اس امر کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے۔ اور اس بارے میں یہ قاعدہ کلیہ مقرر فرمایا گیا ہے کہ جس نے کسی نیکی کی راہ ڈالی تو اس کو اس کا اجر بھی ملے گا اور جو کوئی آئندہ اس راہ پر چلے گا اس کا اجر وثواب بھی اسی کا ملے گا۔ اور اس کے برعکس جس نے کسی برائی کی راہ ڈالی اس پر اس کا اپنا گناہ بھی ہوگا اور آئندہ جو کوئی اس راہ پر چلے گا اس کا گناہ بھی۔ سو ایسوں کو آخرت میں تو اس کا بھگتان بھگتنا ہی ہوگا مگر اس سے پہلے اس دنیا میں بھی بعض اوقات ان کو ایسا بھگتان بھگتنا پڑتا ہے جو دنیا کیلئے نمونہ عبرت و بصیرت بن جاتا ہے۔ اس کی تازہ مثال آج ہمارے سامنے موجود ہے جو کہ صرف دو دن پہلے پیش آئی۔ اور ایسی کہ اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر و مثال نہیں ملتی۔ اور وہ ہے نیپال کے شاہی خاندان کا اجتماعی قتل اور نہایت عبرتناک قتل۔ کہ پورا شاہی خاندان اپنے شاہی محل میں بیٹھا تھا کہ باتوں باتوں میں ان کا اپنا جوان بیٹا جو ان کا ولی عہد بھی تھا اور اس کی عمر 29 سال تھی کسی بات پر غصے ہوگیا اور یکدم جاکر کلاشنکوف اٹھا لایا اور ٹک ٹک فائرنگ شروع کردی۔ جس سے اس نے اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور چچاؤں وغیرہ میں سے جو بھی وہاں موجود تھے سب کو بھون ڈالا اور پھر خود اپنے سر میں بھی گولی مار دی۔ اور اس طرح شاہی خاندان کے دس آدمی وہیں ڈھیر ہوگئے۔ پورا شاہی خاندان ہمیشہ کیلئے موت کی نیند سوگیا۔ طویل زمانے سے چلی آنے والی بادشاہت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہوگیا اور کل ان سب کی لاشوں کو آگ کے شعلوں کی نذر کردیا گیا۔ اور کفر پر مرنے کے باعث وہ سب فی النار والسقر ہوگئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ایسی حکومت و بادشاہی اور سربراہی و پیشوائی کا کیا فائدہ ؟ یہ تو نرا عذاب ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اس لیے اللہ کے بندے اللہ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں متقی اور پرہیزگار لوگوں کا امام و پیشوا بنا تاکہ وہ ہمارے لیے دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ بنے۔ ورنہ محض دنیاوی بادشاہی نہ مقصود و مطلوب ہے اور نہ مفید و دائم۔
Top