Tafseer-e-Majidi - An-Najm : 12
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور یہ وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا سردار بنادے،87۔
87۔ یعنی ہمارے گھر والے، ہمارے بیوی بچے، سب ایسے دیندار وپابند شریعت ہوں کہ ہم انہیں دیکھ دیکھ کر باغ باغ ہوجایا کریں۔ اور ہم کو تقوی میں کمال بھی اس درجہ کا عطا کر کہ دوسرے اہل تقوی ہم سے ہدایت پائیں۔ انسان کا بجائے خود دیندار ہونا کافی نہیں، اپنے گھروالوں کی بھی دینداری کی دیکھ بھال اس پر لازم ہے۔ ضمنا یہ بات بھی نکل آئی کہ صاحب اہل و عیال ہونا، ایمان کیا معنی کمال ایمان وتقوی کے بھی منافی نہیں۔ اور اس میں رد ہے مسیحیوں اور بعض ان مشرک قوموں کا جنہوں نے تجرد و انقطاع ورہبانیت کو دلیل کمال سمجھا ہے۔
Top