Tafseer-e-Jalalain - Al-An'aam : 101
اِلَّا الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْكُمْ شَیْئًا وَّ لَمْ یُظَاهِرُوْا عَلَیْكُمْ اَحَدًا فَاَتِمُّوْۤا اِلَیْهِمْ عَهْدَهُمْ اِلٰى مُدَّتِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ
اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتُّمْ : تم نے عہد کیا تھا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع) ثُمَّ : پھر لَمْ يَنْقُصُوْكُمْ : انہوں نے تم سے کمی نہ کی شَيْئًا : کچھ بھی وَّلَمْ يُظَاهِرُوْا : اور نہ انہوں نے مدد کی عَلَيْكُمْ : تمہارے خلاف اَحَدًا : کسی کی فَاَتِمُّوْٓا : تو پورا کرو اِلَيْهِمْ : ان سے عَهْدَهُمْ : ان کا عہد اِلٰى : تک مُدَّتِهِمْ : ان کی مدت اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگار (جمع)
سوائے ان لوگوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا پھر انہوں نے تمہارے ساتھ ذرا کمی نہ کی اور نہ تمہارے مقابلہ میں کسی کی مدد کی۔ سو تم ان کے معاہدہ کو ان کی مدت مقررہ تک پورا کردو۔ بلاشبہ اللہ تقوی اختیار کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
1:۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” الا الذین عھدتم من المشرکین “ سے مراد قریش کے وہ مشرک ہیں جن سے اللہ کے نبی ﷺ نے حدیبیہ کے زمانہ میں معاہدہ کیا تھا اور قربانی کے دن کے بعد اس کی مدت میں سے چار ماہ باقی تھے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی نبی ﷺ کو حکم فرمایا کہ ان کے ساتھ اس معاہدہ کو ان کی مدت تک پورا کریں۔ 2:۔ ابن منذر وابن ابی حاتم وابو الشیخ نے محمد بن عباد بن جعفر (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الا الذین عھدتم من المشرکین “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ مشرکین بنوخزیمہ بن عامر اور بنوبکر بن کنانہ ہیں۔ 3:۔ ابن ابی حاتم وابن مردویہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” ثم لم ینقصوکم شیئا “ کے بارے میں فرمایا کہ اگر مشرکین اپنے عہد کو توڑ دیں اور وہ دشمن پر غلبہ پالیں ان کے لئے کوئی معاہدہ نہیں اور اگر وہ اپنے عہد کو پورا کریں جو ان کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان قائم ہے۔ اور وہ آپ پر غلبہ پانے کی کوشش نہ کریں تو ان کو حکم دیا گیا کہ آپ ان کے عہد کو قائم رکھیں اور اس کو پورا کریں۔ 4:۔ ابن ابی حاتم نے م جاہد (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” فاتموا الیہم عہدہم الی مدتہم “ کے بارے میں فرمایا کہ قبیلہ بنومدلج اور خزاعہ سے عہد تھا اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” فاتموا الیہم عہدہم الی مدتہم “ (کہ ان کی مدت تک ان کے عہد کو پورا کریں) 5:۔ ابو الشیخ نے سدی (رح) سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ” الا الذین عھدتم من المشرکین “ کے بارے میں فرمایا کہ یہ بنوحمزہ وبنومدیح حیان کے لوگ تھے بنوکنانہ میں سے یہ نبی کریم ﷺ کے حلیف تھے غزوۃ العسرہ میں جو بنو تبیع سے تھا (پھر فرمایا) (آیت) ” ثم لم ینقصوکم شیئا “ یعنی پھر انہوں نے اپنے معاہدہ کو نہیں توڑا دھوکہ دیتے ہوئے (اور) (آیت) ” ولم یظاھروا “ یعنی ہم پر تمہارے دشمن کی مدد نہیں کی (آیت) ” فاتموا الیہم عہدہم الی مدتہم “ یعنی ان کی مدت کو پورا کرو جو ان کے لئے تم نے شرط لگائی تھی (آیت) ” ان اللہ یحب المتقین “ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں ان چیزوں میں جو ان پر حرام کی گئیں اور وہ عہد کو پورا کرتے ہیں۔ راوی نے کہا کہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعدنبی کریم ﷺ نے کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں فرمایا۔
Top