Ruh-ul-Quran - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی جانب سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا
وَالَّذِیْنَ یَـقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَجِنَا وَذُرِّیّٰـتِـنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّـقِیْنَ اِمَامًا۔ (الفرقان : 74) (اور جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی جانب سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ ) عبادالرحمن کی جامعیت عبادالرحمن کی صفاتِ حمیدہ کو پڑھ کر گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید یہ لوگ علائقِ دنیا سے لاتعلق، گھریلو زندگی سے بےنیاز اور حقوق و فرائض کی گراں باریوں سے گریزاں ہوں گے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں یہ بتا کر ہماری اس غلط فہمی کو دور کردیا گیا ہے کہ وہ ازدواجی زندگی کی ذمہ داریوں سے گراں بار اور بیوی بچوں کے حقوق سے بہرہ ور بھی ہیں۔ وہ نہ صرف ان رشتوں سے گریزاں نہیں بلکہ ان کے اندر ان رشتوں کی چاہت بھی پائی جاتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ان رشتوں کی چاہتیں اور دلبستگیاں سیرت و افکار میں آلودگی پیدا کرنے کا باعث ہوں، لیکن ہم اس کے برعکس یہ دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی بیویوں سے محبت اور اپنی اولاد سے گہری وابستگی رکھنے کے باوجود ان کے لیے وہ کچھ نہیں چاہتے جو ہمیشہ شوہر اپنی بیوی اور باپ اپنی اولاد کے لیے چاہتا ہے۔ وہ بیوی کو اچھا مکان اور آرام و راحت ضرور بہم پہنچاتے ہیں اور اولاد کے خوب سے خوب تر مستقبل کے لیے کوشاں بھی رہتے ہیں، لیکن حقیقت میں جو ان کے دل کے ارمان ہیں وہ ان کی دعائوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ کیونکہ دعا ایک ایسی چیز ہے جو انسانی سیرت کے مخفی گوشوں کو بےنقاب کردیتی ہے۔ دعا ہی سے انسان کے ارادوں کی بھنک پڑتی اور اس کی بلند نظری اور عالی ظرفی کا اندازہ ہوتا ہے۔ چناچہ وہ تنہائی میں جب اپنے رب سے عجز و نیاز کا رشتہ جوڑ کر دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو نہ وہ دولت کی ریل پیل مانگتے ہیں اور نہ بچوں کے لیے امارت و سیادت کی درخواست کرتے ہیں بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں یا اللہ ہماری بیویوں اور ہمارے بچوں سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک دنیوی سربلندی میں نہیں بلکہ اخروی فوزوفلاح میں ہے۔ ہمارے گھر کو جنت کا نمونہ بنا دے، جس میں بیوی کی امانت و دیانت، عفت مآبی، غیرت و حمیت اور تقویٰ و طہارت کی روشنی پھیلی ہوئی ہو۔ اور اولاد ایک مومن قانت کی تصویر، تقویٰ و اخلاص کی پیکر، اپنے والدین کی فرمانبردار اور اللہ اور رسول کی کامل وفادار ہو۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جو جنت میں لے جانے والی اور آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہیں۔ اور یہی وہ بشارتیں ہیں جن سے ایک مومن کو آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہوسکتی ہے۔ عبادالرحمن کے ہدف کی بلندی دوسرے جملے میں ارشاد فرمایا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے لیے دعا سے فارغ ہو کر پھر اپنے اللہ سے اپنے لیے دعا مانگنا شروع کردیتے ہیں۔ اور وہ دعا صرف اعمالِ حسنہ اور اخلاقِ طیبہ کے لیے نہیں ہوتی، کیونکہ یہ دولت وہ پہلے بھی حاصل کرچکے ہیں۔ وہ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ الٰہی ! ایمان لانے کے بعد مکہ کی سرزمین ہر مومن کے لیے تنگ ہوتی جارہی ہے، اذیتیں بڑھتی جارہی ہیں، حالات روزبروز بگڑتے جارہے ہیں، ہر گھر میں ایک تصادم برپا ہے، مسلمان کمزور ہونے کے باعث ظلم کی چکی میں پسے جارہے ہیں۔ اس لیے ہر ایمان لانے والا استقامت میں دشواری محسوس کررہا ہے اور ہر ایمان کا ارادہ کرنے والا اپنے سامنے رکاوٹوں کے انبار دیکھ رہا ہے۔ انسانی ہمت جواب دیتی جارہی ہے، زمین گرمی سے جھلس گئی ہے لیکن بارش کا ہر قطرہ اس لیے برسنے کی ہمت نہیں کررہا کہ برسنے کا نتیجہ جھلس جانے کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔ الٰہی ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم ایسے مومنوں اور تقویٰ شعار لوگوں کے لیے امامت اور پیشوائی کا فرض انجام دے سکیں، ہم مخالفتوں کو انگیخت کریں اور برداشت کریں، ہماری استقامت دوسروں کے لیے حوصلے کا سامان بن جائے۔ آج کے حالات میں کہا جارہا ہے کہ مہنگائی بڑھ جانے کے باعث تنخواہوں میں گزارہ نہیں ہورہا اس لیے رشوت سے بچنا یا دیگر حرام ذرائع سے اجتناب کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ آج ہر مومن اور متقی کا فرض ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہے اپنے عمل سے ایسے ہی مشکل حالات میں جینے کا راستہ پیدا کرے۔ جب دفتر میں لوگ یہ کہیں کہ ہم رشوت کیوں نہ لیں، تنخواہ سے کسی طور گزارہ نہیں ہوسکتا تو دفتر کے ایک کونے میں بیٹھا ہوا کوئی کلرک رشوت سے اجتناب اور پرہیز کی تصویر بن کر اپنے رفیقوں کو یہ سبق دے سکے کہ میرا عمل دیکھو میں بھی تمہاری طرح بیوی بچوں کی ذمہ داریاں رکھتا ہوں، مجھے بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانا ہے، میری ضرورتوں میں اور تمہاری ضرورتوں میں کوئی جوہری فرق نہیں۔ اس کے باوجود میں رشوت کے قریب نہیں جاتا، تنخواہ میں سمٹ کے رہتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے میری تنخواہ میں ایسی برکت دے رکھی ہے کہ میں بڑی آسانی سے زندگی گزار رہا ہوں۔ فرق صرف استقامت اور بےصبری، اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور اللہ سے ناامیدی اور جذبہ کفایت اور ہوس کی اسیری میں ہے۔ یہ دو مختلف رویوں کے نام ہیں۔ ان میں سے ایک رویہ متقین کے لیے رہنما پیدا کرتا ہے جس سے وہ اپنی زندگیوں میں روشنی پاتے ہیں۔ اور دوسرا رویہ کم ظرف، ہوس کے اسیر اور خواہشات کے پرستار پیدا کرتا ہے جو دھرتی کا بوجھ بن کر دھرتی کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔
Top