Tadabbur-e-Quran - Al-Furqaan : 74
وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جو يَقُوْلُوْنَ : کہتے ہیں وہ رَبَّنَا هَبْ لَنَا : اے ہمارے رب عطا فرما ہمیں مِنْ : سے اَزْوَاجِنَا : ہماری بیویاں وَذُرِّيّٰتِنَا : اور ہماری اولاد قُرَّةَ اَعْيُنٍ : ٹھنڈک آنکھوں کی وَّاجْعَلْنَا : اور بنادے ہمیں لِلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کا اِمَامًا : امام (پیشوا)
اور جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہم کو ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی جانب سے آنکھوں کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو پرہیز گاروں کا سربراہ بنا
اہل و عیال کی عاقبت کی فکر یہ لوگ اپنی عاقبت کی فکر کے ساتھ اپنے اہل و عیال اور اپنی آل و اولاد کی عاقبت کی بھی برابر فکر رکھتے ہیں۔ وہ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کلم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ ہر شخص اپنے اہل و عیال کا چرواہا بنایا گیا ہے اور قیامت کے روز ہر شخص سے اس کے گلہ کے خیر و شر سے متعلق پرسش ہونی ہے۔ اس ذمہ داری کا کما حقہ، احساس رکھنے کی وجہ سے وہ اپنے اہل و عیال کے اندر ان لاء ابالی لوگوں کی طرح زندگی نہیں گزارتے جن کو صرف اپنے عیش دنیا کی فکر ہوتی ہے، اس امر سے انہیں کوئی بحث نہیں ہوتی کہ ان کے اہل و عیال نیکی کی راہ پر چل رہے ہیں یا بدی کی۔ ان لوگوں کے لا ابالی پن کا ذکر سورة قیامہ اور سورة مطففین میں آئے گا۔ اللہ کے بندوں کا حال اس سے بالکل شیطان کی راہ نہ اختیار کیر، سورة طور کی آیت انا کنا قبل فی اھلنا مشفقین (26) اور ہم اس سے پہلے اپنے اہل و عیال میں ڈرنے والے تھے) میں ان کے اسی فکر و اندیشہ کی طرف اشارہ ہے۔ اس اندیشے کی وجہ سے وہ برابر اپنے رب سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے رب ! ہم کو ہمارے اہل و عیال کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب کر، ان کے اعمال و اخلاق تیری پسند اور ہماری تمنائوں کے مطابق ہوں اور ہم اس دنیا میں صالحین و متقین کے سربراہ ہوں اور آخرت میں بھی صالحین و متقین کے سربراہ کی حیثیت سے اٹھیں، فساق و فجار کے امام کی حیثیت سے اٹھیں۔ ہم نے اس آیت کی جو تاویل کی ہے اس سے یہ بات واضح ہے کہ یہ قیادت و سیادت کے حصول کی دعا نہیں ہے بلکہ ہر صاحب کنبہ کو بالفعل جو سیادت حاصل ہوتی ہے اس کی ذمہ داریوں سے کما حقہ عہدہ برآ ہونے کی دعا ہے۔ اس آیت کی فسیر ہم نے اپنی کتاب توضیحات میں بھی لکھی ہے۔ تفصیل کے طالب اسی کو پڑھیں۔
Top