Anwar-ul-Bayan - Hud : 57
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
تم سب امتوں سے بہتر امت ہو جو نکالی گئی لوگوں کے لیے بھلائی کا حکم کرتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر ان میں سے فرمانبر داری سے باہر ہیں۔
امت محمدیہ کی امتیازی صفات اس آیت شریفہ میں امت محمدیہ کو (خَیْرَ اُمَّۃٍ ) فرمایا ہے اور اس امت کا نبی بھی خیر الانبیاء اور سید الانبیاء ہے۔ جس کا آیت (لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَ لَتَنْصُرُنَّہٗ ) میں ذکر فرمایا ہے، نیز آنحضرت سرور عالم ﷺ نے فرمایا اَنَا سید ولد اٰدم یوم القیامہ کہ میں قیامت کے دن آدم کی تمام اولاد کا سردار ہوں گا (رواہ مسلم 245: ج 2) نیز آپ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن میں آدم کی تمام اولاد کا سردار ہوں گا اور بطور فخر کے نہیں کہہ رہا ہوں اور میرے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور بطور فخر کے نہیں کہہ رہا ہوں اور اس دن آدم ہوں یا ان کے علاوہ کوئی اور نبی ہو سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں سب سے پہلا وہ شخص ہوں گا جس سے زمین پھٹے گی (یعنی قبر سے سب سے پہلے ظاہر ہوں گا) اور میں بطور فخر کے نہیں کہہ رہا ہوں۔ (رواہ الترمذی کمافی المشکوٰۃ صفحہ 513) سنن مذتری میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ للنَّاسِ ) کی تلاوت فرمائی پھر فرمایا کہ سترویں (70) 1 مت کو پورا کر رہے ہو تم سب امتوں سے بہتر ہو اور اللہ کے نزدیک سب امتوں سے بڑھ کر اکرم ہو (قال الترمذی ہذا حدیث حسن) اس امت کو خیر الامم بتاتے ہوئے اس کے اوصاف بھی بتا دئیے اور وہ یہ کہ تم بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ معلوم ہوا کہ اس امت کا طرہ امتیاز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ امت کا ہر فرد اس کام میں لگے البتہ اس میں تفصیلات ہیں کہ کبھی فرض عین ہوتا ہے کبھی فرض کفایہ کبھی واجب اور کبھی سنت۔ روح المعانی (صفحہ 28: ج 4) میں حضرت عمر ؓ کا قول نقل کیا ہے انہوں نے فرمایا : یا ایھا الناس من سرہ ان یکون من تلکم الامۃ فلیود شرط اللّٰہ تعالیٰ و اشار بذالک الی قولہ سبحانہ تامرون بالمعروف و تنھون عن المنکر۔ گزشتہ رکوع میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی فضیلت اور ضرورت اور اہمیت بیان ہوچکی ہے اس کو دو بارہ دیکھ لیا جائے یہاں یہ بات بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ کو کیوں مؤخر کیا جبکہ ایمان ہر عمل سے مقدم ہے۔ اور ہر عمل کے قبول ہونے کے لیے شرط ہے۔ صاحب روح المعانی نے اس سلسلہ میں تین باتیں لکھی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ مقصود بالبیان اس جگہ پر چونکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اس لیے ان دونوں کو مقدم کیا۔ لیکن پھر ایمان کا تذکرہ بھی فرما دیا ہے کہ تُؤْمِنُوْنَ باللّٰہِ اس لیے فرمایا کہ آگے اہل کتاب سے جو کلام متعلق ہے اس سے مرتبط ہوجائے۔ اکثر اہل کتاب فرمانبر داری سے خارج ہیں : اہل ایمان کا ذکر فرما کر اہل کتاب کا ذکر فرمایا : (وَ لَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَکْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ ) (اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا) اس سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے کے بعد آپ سے پہلے جس کسی نبی یا جس کسی کتاب سماوی پر کسی کا ایمان تھا یا اب ہے وہ معتبر نہیں ہے جب تک کہ نبی آخر الزمان ﷺ پر ایمان نہ ہو۔ پھر فرمایا اہل کتاب میں بعض مومن ہیں جیسے عبداللہ بن سلام اور بعض دیگر اہل کتاب (جنہوں نے حق کو قبول کیا اور دنیاوی منافع نے ان کو حق سے نہیں روکا) اور اہل کتاب میں اکثر اللہ کی فرمانبر داری سے خارج ہیں، یعنی کافر ہیں۔
Top