Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ
: تم ہو
خَيْرَ
: بہترین
اُمَّةٍ
: امت
اُخْرِجَتْ
: بھیجی گئی
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
تَاْمُرُوْنَ
: تم حکم کرتے ہو
بِالْمَعْرُوْفِ
: اچھے کاموں کا
وَتَنْهَوْنَ
: اور منع کرتے ہو
عَنِ
: سے
الْمُنْكَرِ
: برے کام
وَتُؤْمِنُوْنَ
: اور ایمان لاتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَلَوْ
: اور اگر
اٰمَنَ
: ایمان لے آتے
اَھْلُ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
لَكَانَ
: تو تھا
خَيْرًا
: بہتر
لَّھُمْ
: ان کے لیے
مِنْھُمُ
: ان سے
الْمُؤْمِنُوْنَ
: ایمان والے
وَ اَكْثَرُھُمُ
: اور ان کے اکثر
الْفٰسِقُوْنَ
: نافرمان
(تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے نکالا گیا ہے۔ معروف کا حکم دیتے ہو منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں اور اکثر نافرمان ہیں
کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْـکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْـکِتٰبِ لَـکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ ط مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ۔ (تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کی راہنمائی کے لیے نکالا گیا ہے۔ معروف کا حکم دیتے ہو منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں اور اکثر نافرمان ہیں) (110) بنی اسرائیل کی منصب ِ امامت سے معزولی اور امت ِ مسلمہ کا تقرر سیاقِ کلام دیکھتے ہوئے یہ بات پورے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ اہل کتاب کو حامل دعوت امت ہونے اور دنیا کی امامت کے منصب سے معزول کردیا گیا ہے۔ ان کی فکری کجرویوں، نیتوں کے فسادات، گروہوں کی عصبیتوں اور اعمال کی خرابیوں کو ایک ایک کر کے اس طرح نمایاں کیا گیا ہے، جس سے خود بخود یہ بات واضح ہوتی چلی جاتی ہے کہ یہ امت جسے کبھی تمام جہان پر فضیلت دی گئی تھی اور جسے توحید کا علمبردار بنایا گیا تھا اور جسے ہدایت کا سرچشمہ قرار دے کر اللہ کے انعامات کا مورد بنادیا گیا تھا۔ اب اس کا زوال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے اور اب اس سے وہ عزتیں اور وجاہتیں واپس لی جا رہی ہیں جس کا اسے حامل بنایا گیا تھا۔ اس کے طور اطوار اور معاملات نے نہ صرف اپنی حیثیت کو خراب کیا بلکہ وہ اللہ کے دین کی رسوائی کا بھی باعث بنے۔ جب باغبان ہی باغ کو اجاڑنے لگے، جب گھر کا پاسبان ہی گھر کی دیواریں توڑنے لگے اور جب قلعہ دار ہی دشمنوں کے لیے قلعے کے مورچے کھول دے تو ایسے لوگوں پر تو غداری اور بےوفائی کا مقدمہ چلنا چاہیے نہ کہ انھیں اصل منصب پر بحال رکھنا چاہیے۔ چناچہ سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں جا بجا اس حقیقت کو نمایاں ہوتے دکھایا گیا ہے۔ قرآن کریم کا قاری اہل کتاب کے کرتوت پڑھ کر انتظار کرنے لگتا ہے کہ کب یہ لوگ اپنے انجام کو پہنچتے ہیں اور قدرت کب ان کے لیے سزا کا اعلان کرتی ہے۔ چناچہ چند رکوع پیشتر قُلِ اللّٰہُمَّ مَالِکَ الْمُلْـکِ… الخ کی دعا کے ضمن میں واضح اشارہ دیا گیا تھا کہ کاتب تقدیر فیصلہ لکھنے ہی والا ہے۔ چناچہ یہاں تک وہ پہنچ کر تقدیر کا فیصلہ لکھا جا چکا اور اب پیش نظر آیت کریمہ سے امت مسلمہ کو اس عظیم منصب پر فائز کیا جا رہا ہے جس پر کبھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) فائز ہوئے تھے اور جن کی جانشینی امت بنی اسرائیل کو دی گئی تھی۔ امتِ مسلمہ کی صفات اس آیت کریمہ میں براہ راست امت مسلمہ کو خطاب ہے۔ خطاب میں نہ صرف ان کے ٹائٹل اور انعام کا ذکر فرمایا گیا ہے بلکہ ان صفات کا بھی ذکر کردیا گیا جو اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے کے بعد مسلمانوں کے اندر نظر آنی چاہئیں۔ ٹائٹل اور منصب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تم سب سے بہتر امت ہو۔ دنیا میں امتوں کی کمی نہیں۔ روئے زمین پر جا بجا امتیں بکھری ہوئی ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنی اصل حیثیت کو نہ پہچان کر اپنی دوسری شناختیں مقرر کر رکھی ہیں۔ اپنی زندگی کے وظائف وہ ٹھہرا لیے ہیں جس کی وجہ سے وہ اصل امتیاز سے محروم ہوگئے ہیں۔ انھوں نے انسانی زندگی اور حیوانی زندگی میں بہت کم فرق رہنے دیا ہے۔ اس لیے اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ ایک ایسی امت کو اٹھایا جاتا جو انسان کی اس بنیادی ضرورت کی امین بنتی۔ اس کی ذات اسی کی مبلغ و مناد ہوتی۔ اس کی زندگی کے فیصلے خود بخود بولتے کہ اس کی اصل حیثیت کیا ہے ؟ چناچہ امت بنی اسرائیل کو صدیوں تک اسی کام کے لیے مصروفِ عمل رکھا گیا۔ لیکن ان کی نا اہلی اور معزولی کے بعد اب یہ ضروری ہوگیا کہ کسی نئی امت کو اس عظیم اور کٹھن ذمہ داری پر فائز کیا جائے کیونکہ اللہ کی زمین ایسے لوگوں کے سپرد نہیں کی جاسکتی جو اسے درندوں کا بھٹ بنادیں۔ جس میں ظلم اور بربریت کے سوا اور کسی چیز کو ترجیح ملتی نظر نہ آئے۔ چناچہ اللہ نے انسانوں پر رحم فرمایا اور اس امت کو اس عظیم منصب پر فائز فرما کر انسانوں کی اصل ضرورت کو پورا کردیا۔ اس عظیم منصب پر فائز ہونے والی چونکہ ہر امت اسی لقب سے ملقب ہوتی رہی ہے اس لیے اس امت کو بھی یہی لقب دیا گیا کہ تم سب سے بہترین امت ہو اور سورة بقرہ میں اسی منصب کا اعلان دوسرے لفظوں سے کیا گیا ہے وَکَذَالِکَ جَعَلْنَاکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا (چنانچہ ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا ہے) اس کا معنی بھی بہترین امت ہے کیونکہ خَیْرُالْاُمُوْرِ اُوْسَطُہَا (بہترین امور ان کے اوسط ہوتے ہیں) ہر اہم چیز کو وسط میں جگہ ملتی ہے۔ صدارت کی کرسی ہمیشہ درمیان میں رکھی جاتی ہے۔ تخلیقی اور تکوینی طور پر اعتدال اور میانہ روی سب سے اہم صفت ہے۔ جس کا تعلق کمال اخلاق وصفات سے ہے۔ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کا مفہوم لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ خیر امت ہونے کا لقب یا اعزاز محض ایک عہدہ و منصب نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ایسی ہے جو امت کو انفرادیت دینے کے لیے کافی ہے کہ تم وہ بہترین امت ہو جنھیں لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ یعنی تمہاری بعثت تمہاری قدر و منزلت اور تمہارے منصب کا تقاضا یہ ہے کہ تم اپنی فکر بعد میں کرو دوسروں کی فکر پہلے کرو حالانکہ انسانی سرشت اور فطرت اس کے بالکل برعکس ہے۔ انسان سب سے پہلے اپنی فکر کرتا ہے، پھر اپنے بچوں کی کرتا ہے، پھر اپنے عزیزواقارب کی کرتا ہے، پھر اپنی قوم کی کرتا ہے، پھر اپنے ملک کی کرتا ہے۔ اس میں غور فرمایئے کہ انسانی ترجیحات اور اس کی فکر مندیوں میں سب سے بڑا جو امتیاز ہے وہ اپنا ہے۔ یعنی وہ ہر وہ کام کرتا ہے جس کے ساتھ اپنا ہونے کی صفت لگی ہوئی ہے۔ اگر وہ بڑوں کی فکر کرے گا تو سب سے پہلے اپنے اپنے بڑوں کی۔ بچوں کی فکر کرے گا تو سب سے پہلے اپنوں بچوں کی۔ قرابت کی فکر کرے گا تو سب سے پہلے اپنے قرابت داروں کی۔ قوم اور وطن کے بارے میں سوچے گا تو سب سے پہلے اپنی قوم اور اپنے وطن کے بارے میں، لیکن اس امت کو مبعوث کرتے ہوئے جو بات کہی گئی ہے وہ اس رویے کے بالکل خلاف ہے۔ کہ تمہیں اس لیے اٹھایا جا رہا ہے تاکہ تم اپنی اور اپنے بچوں کی فکر کرنے کی بجائے دوسروں کی فکر کرو۔ تمہیں بھوک لگی ہو تو خود کھانا کھانے کی بجائے پہلے اسے کھلائو جو تم سے زیادہ بھوکا ہے۔ اسے کپڑا پہنائو جو تم سے کم وسائل رکھتا ہے۔ اس کا علاج کرو جو تم سے زیادہ تکلیف میں ہے۔ ایسا ہونا بظاہر مشکل محسوس ہوتا ہے، لیکن اگر ہم ایک خاص پہلو سے اس پر غور کریں توہ میں محسوس ہوگا کہ دنیا میں عزت و نجابت اور فضیلت ووجاہت اگر ملتی ہے تو صرف اسے جس کا زندگی گزارنے کا طریقہ یہی ہو۔ کہ وہ اپنی بجائے دوسروں کی فکر کرتا ہو۔ اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتا ہو۔ دنیا میں ہر پیشہ ور آدمی اور ہر مزدوری کرنے والا شخص صرف روٹی کمانے کے لیے محنت کرتا ہے موچی جوتا گا ٹھتا ہے، مزدور مزدوری کرتا ہے، کاشت کار ہل جوتتا ہے، نان بائی روٹی پکاتا ہے، مقصد سب کا ایک ہے کہ اپنی ضرورتیں پوری کی جاسکیں اور اپنی اور اپنے بچوں کی بھوک کا علاج کیا جاسکے۔ صرف پیشہ ور لوگ نہیں، بلکہ جو لوگ دماغی محنت سے کام لیتے ہیں مختلف صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں، ان کا مقصود بھی معاش پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ البتہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو نوکری کرتے ہیں، جان کھپاتے ہیں، بلکہ بعض دفعہ جان قربان بھی کردیتے ہیں، ہر طرح کی صعوبتیں اٹھاتے ہیں، لیکن ان کا مقصودِ حقیقی روٹی کمانا یعنی معاش پیدا کرنا نھیں ہوتا۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ان کی َضروریات نہیں ہوتیں یا وہ غذا سے بےنیاز ہوتے ہیں یا ان کے بچوں کو تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی یا انھیں رہنے کے لیے چھت نہیں چاہیے، وہ یہ سب ضرورتیں رکھتے ہوئے بھی ان ضرورتوں کی خاطر جان نہیں کھپاتے۔ فوج ہر ملک کی ضرورت ہے۔ ملک کا وقار فوج سے ہے۔ ملک کا دفاع فوج کی ذمہ داری ہے۔ فوج کے بغیر کوئی ملک محفوظ نہیں رہ سکتا۔ فوج میں بھرتی ہونے والا یا کمیشن لینے والا کوئی شخص بھی تنخواہ کی خاطر فوج میں نہیں جاتا۔ یہ الگ بات ہے کہ انھیں تنخواہ بھی ملتی ہے۔ قوم ان کی ضروریات کو پورا بھی کرتی ہے، لیکن خود ایک سپاہی سے لے کر جرنیل تک تنخواہ کے لیے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ انھیں کمیشن دیتے ہوئے یہ بات واضح کردی جاتی ہے کہ تم یہاں نوکری کے لیے نہیں بلکہ ایک مقصد کے لیے آئے ہو۔ مقصد یہ ہے کہ تم قوم اور ملک کی حفاظت کرو۔ تم اس لیے جاگو تاکہ قوم اطمینان کی نیند سو سکے۔ تم اس لیے ملک کی سرحدوں پر پہرہ دو تاکہ ملک کا ایک ایک باسی اپنے جان و مال اور عزت و آبروکو محفوظ سمجھے۔ تم اس لیے زندہ رہو تاکہ قوم کی زندگی پر آنچ نہ آئے۔ لیکن اگر کبھی ایسا وقت آجائے کہ تمہیں مر کر قوم کو زندگی دینا پڑے تو پھر تمہارا اصل ہدف اور اصل کام مرنا ہے جینا نہیں۔ ہر فوجی کے دل و دماغ کو اسی حقیقت سے آشنا کیا جاتا ہے اور اسی حقیقت کے ساتھ ہر فوجی اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی فوج صرف تنخواہ لینے اور کمانے کے لیے فوج کی نوکری کرے اور فوجی ذمہ داریاں ادا کرے تو ایسی کرائے کی فوج ملک و قوم کے لیے بوجھ تو ہوسکتی ہے، ملک کی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ جانور جنھیں اللہ تعالیٰ نے صرف احساسات کی دولت بخشی ہے جوہر عقل سے نہیں نوازا اور خیر و شر کی تمیز تو ان کا موضوع ہی نہیں۔ با ایں ہمہ ! ہم دیکھتے ہیں کہ جانور بھی سب یکساں نہیں۔ جانوروں میں بیشتر انواع ایسی ہیں جنھیں صرف اپنی ضروریات کے حصول کی فکر ہوتی ہے۔ انھیں روٹی کا ٹکڑا یا دانہ دنکا ملنا چاہیے چاہے کسی بچے کے ہاتھ سے چھیننا پڑے۔ وہ ہر وقت پلٹنے جھپٹنے میں رہتے ہیں تاکہ کہیں سے بھی اپنی ضرورت پوری کی جاسکے۔ لیکن انھیں میں سے ایک جانور شاہین بھی ہے۔ وہ اپنی پرواز کی قوت اور اڑان کی بلندی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ اسے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوتوں سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود وہ کبھی کسی مردار پہ نہیں اترتا۔ کبھی کسی کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا نہیں چھینتا۔ کبھی کسی کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ وہ سب سے زیادہ پلٹتا جھپٹتا ہے، لیکن ضروریات رکھتے ہوئے بھی پلٹنے جھپٹنے کا مقصد ضروریات کا حصول نہیں ہوتا۔ وہ بالکل ایک مرد مومن کی طرح زندگی گزارتا ہے۔ ہمارے قومی شاعر اقبال نے اس کے اندر مومنانہ صفات دیکھی ہیں۔ اسی لیے اسی کی زبان سے اس نے کہلوایا ؎ کیا میں نے اس خاکداں سے کنارہ جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ یہ پورب یہ پچھم چکوروں کی دنیا مرا نیلگوں آسماں بےکرانہ حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں کہ ہے زندگی باز کی زاہدانہ پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں کہ شاہیں بناتا نہیں آشیانہ اس امت کو بھی ایسی ہی صفات دے کر پیدا کیا گیا ہے۔ اس کے ایک ایک فرد کو بھی بھوک لگتی ہے۔ اسے بھی تن پوشی کے لیے کپڑا چاہیے، اسے بھی موسم کی شدت سے بچنے کے لیے وسائل درکار ہیں، اسے بھی اپنے سر کے لیے گھر کی چھت کی ضرورت ہے، اس کے بچے بھی تعلیم کے محتاج ہیں، انھیں بھی دوسرے بچوں کی طرح تمام ضرورتیں ملنی چاہئیں۔ لیکن یہ تمام چیزیں اس کا مقصد نہیں۔ اس کا مقصد بھی فوج کی طرح دوسروں کے لیے جینا ہے۔ یہ زندگی کی ضروریات پر محنت سے زیادہ اپنے منصبی مشاغل پر محنت کرتا ہے۔ اس کے سامنے لوگوں کی اصلاح و ہدایت ہے۔ جس طرح ایک دنیا دار ایک ایک روپے کی طلب میں جان کھپاتا ہے یہ ایک ایک شخص کی ہدایت کے لیے محنت کرتا ہے۔ اس کی نگاہ میں درہم و دینار اور سونا چاندی کے ڈھیروں کی وہ قیمت نہیں جو ایک انسان کی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس زمین کی خوشحالی اور زمین پر رہنے والے انسانوں کی آسودگی خود انسان کے اصلاح یافتہ ہونے میں ہے۔ انسان میں اگر محنت کا جذبہ ہے تو وسائل فراہم ہوتے دیر نہیں لگتی۔ اگر اس میں اللہ کا خوف اور تقویٰ ہے تو وسائل کو انسانی فلاح و صلاح میں خرچ کرتے ہوئے کوئی دشواری پیش نہیں آتی۔ اگر انسان کے اندر شکر کی صفت پائی جاتی ہو تو وہ جہاں اللہ کی نعمتوں کا قدردان ہوگا وہیں انسانوں کی خدمتوں کا قدردان بھی ہوگا۔ اگر اس کے اندر صبر کی قوت پائی جائے گی تو وہ ہوس زر میں کبھی مبتلا نہیں ہوگا اور بڑی سے بڑی مشکل کو بھی برداشت کرلینے میں اسے کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔ آپ مثال کے طور پر ایک ایسے گھر کا تصور کیجیے جس میں میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کے پاسدار ہوں۔ وہ اللہ سے ڈرنے والے اور اپنی اولاد کے لیے سرتاپا شفیق ہوں اور ان کی اولاد اسلامی تربیت سے آراستہ ماں باپ کی فرمانبردار ہو اور اگر گھر میں اور افراد بھی ہیں تو ہر فرد دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کے لیے بےچین ہو۔ اندازہ فرمایئے ! اس گھر سے بڑھ کر خوش قسمت اور سعادت مند گھر اور کونسا ہوگا ؟ لیکن اس کے برخلاف اگر ایک گھر میں دولت کی ریل پیل ہے، لیکن میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے خیانت کرتے ہیں، شرم و حیا گھر سے رخصت ہوچکے ہیں، اولاد ماں باپ کی شفقت سے محروم اور ماں باپ اولاد کی محبت اور خدمت سے بیگانہ ہیں۔ غور فرمایئے ! کہنے کو تو یہ گھر بڑا خوبصورت گھر ہوگا لیکن حقیقت میں یہ گھر نہیں بلکہ حیوانوں کا باڑا ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا ہے کہ تم بہترین امت ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہیں خود سے زیادہ دوسروں کی ہدایت و فلاح کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ تمہاری اصل ذمہ داری یہ ہے کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔ تمہاری بھی باقی قوموں کے افراد کی طرح یقینا یہ خواہش ہوگی کہ ہمارے ملک میں وسائل کی فراوانی ہو، سڑکیں صاف ستھری، مکانات خوبصورت اور آرام و راحت کا ہر ذریعہ میسر ہو، ہمارے کارخانوں کی چمنیاں دھواں اگلتی ہوں، ہمارے کھیت سونا اگلتے ہوں، ہر طرف دولت کی ریل پیل ہو۔ ان میں سے کوئی خواہش بھی بری نہیں۔ لیکن یہی تمام خواہشیں اور یہی تمام وسائل عذاب بن جاتے ہیں جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے پر عمل نہیں ہوتا۔ مال لٹتا ہے، عزتیں اچھلتی ہیں، انصاف بےوقار ہوتا ہے، عدالتیں بکنے لگتی ہیں، احتسابی اداروں کی قیمتیں لگنے لگتی ہیں، حکمران حکومت کے نشے میں اندھے ہوجاتے ہیں تو اولاً تو یہ وسائل مہیا نہیں ہوسکتے اور اگر ہوجائیں تو آسودگی کی بجائے تباہی کا سبب بنتے ہیں جیسے آج ساری دنیا میں ہو رہا ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ تمہیں اس لیے اٹھایا گیا ہے کہ تم دنیا میں معروف کو سربلند رکھنے کی کوشش کرو۔ برائی کو کبھی سر چڑھنے نہ دو ۔ دنیا میں ان دونوں کا شعور عام کردو اور لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دو کہ تمہارا اصل سرمایہ نیکی کا فروغ اور بدی کا زوال ہے۔ اسی میں تمہاری زندگی ہے اور اسی میں انسانی وقار ہے۔ باقی ساری امتیں وہ بیشک دنیا طلبی میں اندھی ہوتی رہیں لیکن تم اپنی اس بنیادی خصوصیت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ تمہاری فکر مندی بہتر سے بہتر وسائل کے لیے نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمہاری فکر مندی اور پریشانی ایک ایک نیکی کے فروغ کے لیے، ایک ایک فرض کی ادائیگی کے لیے، ایک ایک حق کی بجا آوری کے لیے اور ایک ایک بھلائی کی سربلندی کے لیے ہونی چاہیے۔ لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے جبکہ تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو یعنی تمہارا دل و دماغ کبھی اس تصور سے خالی نہ ہونے پائے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو تمہارا اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ تمہارا ہر کام اس کی نگاہوں میں ہے۔ تم اسی کے عائد کردہ فرائض کی پابندی میں اسی کی رضا کی خاطر لگے ہوئے ہو۔ تمہاری رات کی تنہائیاں بھی اسی کی یاد اور اسی کے خوف سے آباد رہیں کیونکہ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کا استحضار وہ دولت ہے جو انسان کو ہر برے تصور سے محفوظ رکھتی ہے۔ اگر یہ دولت آدمی کو نصیب نہ ہو تو نیکی بھی برائی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ بظاہر نیکی کا وعظ کہا جاتا ہے لیکن اس کا اثر اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے ایمان کا نور نہیں ہوتا۔ جگر مراد آبادیؔ نے ٹھیک کہا ؎ واعظ کا ہر اک ارشاد بجا تقریر بہت دلچسپ مگر آنکھوں میں سرور عشق نہیں چہرے پہ یقیں کا نور نہیں ایسی صورت میں خالی باتیں انسان کی قسمت بناتی نہیں بلکہ بگاڑتی ہیں۔ امتِ مسلمہ کی عزت افزائی اور ان کی حقیقی قدرومنزلت کو بیان کرنے کے بعد ایک عجیب بات ارشاد فرمائی۔ دنیا کا طریقہ یہ ہے کہ جب کسی نااہل کو اس کی نا اہلی کی وجہ سے کسی عظیم منصب سے معزول کیا جاتا ہے تو پھر اسے کسی رحم یا مہربانی کا مستحق نہیں سمجھا جاتا۔ اہل کتاب کو سینکڑے سالوں کی نااہلی کے بعد اس عظیم منصب سے معزول کیا گیا۔ اب ان کی اصل جگہ سوائے جہنم کے اور کہیں نہیں۔ لیکن قربان جایئے اللہ کی کریمی کے کہ آخری آیت میں فرمایا : وَلَوْ اٰمَنَ اَہْلُ الْـکِتٰبِ لَکَانَ خَیْرًا لَّہُمْ مِنْہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَکْثَرُہُمُ الْفٰسِقُوْنَ ( اگر اہل کتاب اپنی تمام تر بد اعمالیوں اور چیرہ دستیوں کے باوجود اب بھی ایمان لے آئیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا ) گزشتہ صدیوں کا ان سے حساب نہیں لیاجائے گا۔ وہ ایمان لا کر نئی زندگی کا آغاز کریں گے اور اپنے صدق و اخلاص سے اپنے لیے جو مقام پیدا کریں گے وہی ان کا حقیقی مقام ہوگا۔ گزشتہ حوالوں سے کسی بات کا ان سے تذکرہ نہیں ہوگا۔ اس قدر مروت و رحمدلی کے باوجود افسوس یہ ہے کہ ان میں ایمان لانے والے بہت کم ہیں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نافرمان اور حد سے گزرجانے والے ہیں۔
Top