Tafseer-e-Majidi - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
تم لوگ بہترین جماعت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے،226 ۔ تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو،227 ۔ اور اہل کتاب بھی اگر ایمان لے آتے تو ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا،228 ۔ ان میں سے (کچھ تو) ایمان والے ہیں مگر اکثر ان میں سے نافرمان ہیں،229 ۔
226 ۔ یعنی تم اس لیے بنائے گئے ہو کہ لوگ تمہارے نقش قدم پر چلیں۔ تم ساری دنیا کے لیے ایک نمونہ بنا کر بھیجے گئے ہو، خطاب امت محمدی ﷺ اور ملت اسلامی سے ہے۔ (آیت) ” کنتم “۔ کان یہاں یا تو زائد ہے یا تامہ استعمال ہوا ہے اور اگر ناقصہ ہے جب بھی مراد دوام نسبت ہے۔ قیل ھو کان التامۃ المعنی خلقتم ووجدتم خیر امۃ وقیل کان زائدۃ المعنی انتم خیر امۃ (قرطبی) لایراد ھھنا الدلالۃ علی معنی الزائد و انقطاع النسبۃ بل المراد دوام النسبۃ (بحر) 227 ۔ (پورا پورا جیسا کہ حق ہے ایمان باللہ کا) آیت کے اس جزء میں امت اسلامی کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی زندگی کے کامل ومکمل ہونے کا پورا فوٹو آگیا۔ مطلب یہ ہوا کہ اے مسلمانو ! تم اپنی ذمہ داری پوری طرح محسوس کرو تم توحید کے امانت دار ہو، زمین پر اللہ کے نائب وخلیفہ ہو۔ بہ طور اس کی پولیس کے ہو۔ الہی قانون کے نفاذ و تحفظ کے لیے، دنیا کے نظام عدل کو برقرار رکھنے کے لیے بھیجے گئے ہو۔ تمہاری زندگی کا مشن ہی یہ ہے کہ حکومت الہیہ کو چلاؤ، نظام حق کے ایک ایک کل پرزہ کو درست رکھو اور نظام باطل کا زور چلنے ہی نہ دو ۔ ظلم ہوتا اگر اس ذمہ دار فعال (اگزیکٹو) جماعت کو جدال و قتال کی آزادی نہ ملتی ! بلااجازت جہاد، بلااجازت اجراء حدود وتعزیرات اس قوم پر ذمہ داریاں ڈال دینے کے معنی یہ ہوتے کہ ہاتھ پیرباندھ کر حکم دریا میں تیرنے کا دیا جارہا ہے۔ کیا تماشہ ہے کہ انگریز ہندوستان میں ستی کی رسم کو جرم قرار دے دیں تو وہ ملک کے محسن، ہندوؤں میں بچپن کی شادیوں کے دستور کو روک دیں تو ان کا شکریہ واجب۔ لیکن اللہ کے سپاہی اور مالک الملک کے پیارے اگر یہ حق حاصل کرنا چاہیں کہ قانون الہی سے بغاوت کرنے والوں اور امن عالم کو غارت کرکے رکھ دینے والوں کی داروگیر کریں تو ” روشن خیالی “ کے جبین تحمل پر شکن آجائے اور ” تہذیب “ کا پروپیگنڈسٹ اسے رواداری کے خلاف قرار دینے لگے (آیت) ” تنھون عن المنکر “۔ منکر کے تحت میں آج کے شراب خانہ اور تھیڑ، سینما اور کنسرٹ ہال، ناچ گھر اور میوزک کالج، اسکول آف آرٹ اور تصویر خانے سب آجاتے ہیں، آیت سے ظاہر ہے کہ اس امت کی خیریت وافضیلت اسی وقت تک ہے جب تک وہ ان صفات کی حامل ہے۔ یعنی ایمان باللہ میں مضبوط ہے، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (ایجابی وسلبی دونوں قسم کی اخلاقی خوبیوں) پر قائم ہے۔ 228 ۔ (حالا بھی اور قالا بھی۔ فی الفور بھی اور بہ لحاظ انجام کار بھی) یہ ایمان لے آنا تو ان اہل کتاب کا فرض ہی تھا اور عملی مثال مسلمانوں کی دیکھ بھی رہے تھے۔ 229 ۔ (آیت) ” فاسق “۔ یہاں کافر کے معنی میں ہے۔ یعنی حد عبودیت سے باہر نکل جانے والے۔ کامل فی فسقہ متمرد فی کفرہ (بحر) عبرعن الکفر بالفسق (روح) ای الکافرون (معالم) الضلالۃ الکفر الفسق العصیان (ابن کثیر) (آیت) ” منھم ال مومن ون “۔ اس گروہ میں عبداللہ ؓ بن سلام یہودی کی طرح دوسرے اہل کتاب بھی داخل ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ ہی میں ایمان لے آئے تھے۔
Top