Fi-Zilal-al-Quran - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ : تم ہو خَيْرَ : بہترین اُمَّةٍ : امت اُخْرِجَتْ : بھیجی گئی لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے تَاْمُرُوْنَ : تم حکم کرتے ہو بِالْمَعْرُوْفِ : اچھے کاموں کا وَتَنْهَوْنَ : اور منع کرتے ہو عَنِ : سے الْمُنْكَرِ : برے کام وَتُؤْمِنُوْنَ : اور ایمان لاتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَلَوْ : اور اگر اٰمَنَ : ایمان لے آتے اَھْلُ الْكِتٰبِ : اہل کتاب لَكَانَ : تو تھا خَيْرًا : بہتر لَّھُمْ : ان کے لیے مِنْھُمُ : ان سے الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے وَ اَكْثَرُھُمُ : اور ان کے اکثر الْفٰسِقُوْنَ : نافرمان
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانیت کی ہدایت واصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا ۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں ۔
ان آیات کے ابتدائی حصہ میں ‘ جماعت مسلمہ کے کاندھوں پر ایک بھاری بوجھ ڈالا گیا ہے اور یہ بوجھ اس لئے ڈالا گیا ہے کہ اللہ نے اس جماعت کو مکرم اور معزز بنایا ہے اور اسے ایسا مقام و مرتبہ دیا گیا ہے ‘ جس پر آج تک کوئی دوسری جماعت فائز نہیں ہوسکی۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ” اب دنیا میں وہ بہتر گروہ تم ہو ‘ انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو ‘ بدی سے روکتے ہو ‘ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ “ یہاں اخرجت صیغہ ماضی مجہول لایا گیا ہے ۔ اور یہ ایک خاص تعبیر ہے اور قابل توجہ ہے ۔ اس سے اللہ جل کے لطیف دست قدرت کا اظہار ہوتا ہے ۔ جو اس امت کو باہر نکال رہا ہے اور غیب کے اندھیروں میں سے ‘ اس جماعت کو دھکیل دھکیل کر منصہ شہود پر لایا جارہا ہے ۔ اور اسے اس پردے کے پیچھے سے ظاہر کیا جارہا ہے جس کے پیچھے جھانکنا کسی انسان کا کام نہیں ہے اور نہ انسان اس پردہ غیب کے پیچھے کچھ جانتا ہے ۔ اخرجت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خفیہ اور نامعلوم قوت انہیں آہستہ آہستہ اور غیر محسوس طور پر متحرک کررہی ہے ۔ یہ عمل یوں ہوتا ہے کہ اچانک اس کائنات کے اسٹیج پر ایک امت نمودار ہوجاتی ہے ۔ اور اس نے ایک اسٹیج پر ایک خاص رول ادا کرنا ہوتا ہے ۔ یہ رول نہایت اہم ہے ۔ اور اس کائنات میں اس کا ایک خاص مقام متعین ہوجاتا ہے ۔ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ……………” اب دنیا میں بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے ۔ “ یہ ہے وہ بات جس کا ادراک امت مسلمہ کو اچھی طرح کرلینا چاہئے تاکہ اسے اپنی حقیقی قدر و قیمت کا احساس ہوجائے کہ اسے تو تمام انسانوں کی اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے تاکہ وہ ہر اول دستے کا کام دے اور اس کو اس کائنات میں قیادت کا مقام حاصل ہو ۔ اس لئے کہ صرف امت ہی نہیں بلکہ وہ بہترین امت ہے ۔ اور اللہ کی مرضی یہ ہے کہ اس کرہ ارض پر خیر کی قیادت ہو ‘ شر کی قیادت نہ ہو ‘ یہی وجہ ہے کہ یہ بات اس کی شان قیادت سے فروتر قرار دی گئی ہے کہ وہ دوسری جاہلی امتوں سے ہدایت لے ۔ اس کا فرض تو یہ ہے کہ دوسری جاہلی اقوام کو اپنے خزانہ علم واخلاق سے عطیات دے ۔ اور اس کے ذخائر میں ہمیشہ ایسی اجناس موجود ہونی چاہئیں جنہیں وہ دوسری محروم اقوام وملل کو عطا کرتی رہے ۔ وہ ان اقوام وملل کو صحیح عقائد و تصورات دے ‘ صحیح فکر دے ‘ صحیح نظام حیات دے ‘ صحیح اخلاق دے ‘ صحیح علم ومعرفت عطاکرے ۔ یہ وہ فریضہ ہے جو اس کی اعلیٰ حیثیت کی وجہ سے اس پر عائد ہوتا ہے اور اس پر یہ فریضہ اس کے مقصد وجود کی وجہ سے فرض ہوجاتا ہے ۔ یہ بات اس کے فرائض منصبی میں داخل ہے کہ وہ ہر میدان میں دوسری امم کے لئے ہر اول دستہ رہے ۔ وہ ہمیشہ قیادت کے مقام ومنصب پر رہے اور ہمیشہ مرکز امم ہو۔ لہٰذا اس کے اس منصب کے کچھ آثار ونتائج ہیں ۔ وہ منصب محض دعویٰ سے حاصل نہیں ہوتا ‘ بلکہ اس امت کے سپرد کیا جاتا ہے جو اس کی اہل ہوا کرتی ہے ‘ وہ اپنے تصورات و افکار کی وجہ سے اور اپنے اعلیٰ نظام حیات کی وجہ سے جب اس کے اہل ہوتی ہے ‘ تب ہی یہ اسے دیا جاتا ہے ۔ اس لئے کہ امت کو علمی میدان میں بھی سب امم سے آگے ہونا چاہئے اور ترقی وتعمیر کے اعتبار سے بھی اسے اقوام وملل سے آگے ہونا چاہئے ‘ تاکہ وہ مقام خلافت فی الارض پر فائز ہو اور اپنے آپ کو اس کے لئے اہل ثابت کرے ۔ یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ جس نظام حیات کی داعی ہوگی وہ نظام اس سے بہت کچھ کمالات کا مطالبہ کرتا ہے ‘ اور اس سے اس کا اولین مطالبہ یہ ہے کہ وہ ہر میدان میں سب سے آگے رہے اگر وہ اس منصب پر بدستور فائز رہنا چاہتی ہو اور اس کے تقاضوں اور اس کے فرائض کو پورا کرتی ہو ۔ اس امت کے منصب اور مقام کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس زندگی کو شر اور فساد سے پاک کردے اور اس کے پاس اس قدر قوت ہونا چاہئے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ سر انجام دے سکے ۔ اس لئے کہ وہ ایک بہترین امت ہے اور لوگوں کی اصلاح کے لئے نکالا گیا ہے ۔ اور وہ خیر امت محض اللہ کی جانب سے کسی مجاملت یا خصوصی تعلق محبوبیت کی وجہ سے نہیں بنی ‘ نہ ہی اسے خیر امت اتفاقاً بلا مقصد و ارادہ بنادیا گیا ہے ‘ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے اور اس سے ایسے کام کی توقع نہیں کی جاسکتی ‘ اللہ کے ہاں اعزاز اور شرف ان خام خیالیوں کی بنا پر نہیں ملتا ‘ جن میں یہ اہل کتاب مبتلا ہوگئے تھے اور کہتے تھے نَحنُ اَبنَآءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّآؤہٗ ” ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے محبوب ہیں ۔ “ ہرگز نہیں ‘ یہ ایک مثبت عمل تھا ‘ منصوبے کے مطابق انسانیت کو برائی سے بچانامقصود تھا ‘ اسے معروف قائم کرنا مطلوب تھا ‘ اور ایمانی تصور حیات کے ساتھ جو دنیا میں معروف ومنکر کی حدوں کو واضح کردے۔ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ……………” نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ “ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دراصل اس بہترین امت کے فرائض ہیں ‘ جن کو لے کر اسے اٹھنا ہے چاہے وہ ان فرائض کی ادائیگی میں تکالیف اٹھانی پڑیں ‘ اس لئے کہ یہ ایک خاردار راستہ ہے ۔ اس میں شر کو چیلنج کرنا ہے ‘ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانا ہے اور معاشرے کو شروفساد کے عوامل واسباب سے بچانا ہے اور یہ سب کام تھکادینے والے کام ہیں ‘ لیکن یہ سب کام ایک صالح معاشرے کے قیام اور بچاؤ کے لئے ضروری ہیں نیز اس کے سوا وہ نقوش جم نہیں سکتے جن کے مطابق اللہ تعالیٰ انسانی زندگی کو استوار کرنا چاہتے ہیں ۔ “ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ساتھ ساتھ پکا مومن ہونا بھی ضروری ہے ‘ اس لئے اسلامی معاشرے میں حسن وقبح کے پیمانے ایمان ہی کے ترازو کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور معروف اور منکر کی صحیح پہچان ہوسکے ۔ اس لئے کہ کسی ایک گروہ کا صالح ہوجانا ہی کافی نہیں ‘ بعض اوقات شر و فساد اس قدر پھیل جاتا ہے کہ معاشرے کی اجتماعی اقدار بدل جاتی ہیں اور ان میں خلل پڑجاتا ہے ۔ اس لئے خیر وشر کے لئے ایک مستحکم تصور کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس میں فضائل اعمال اور رذائل صفات کے اندر اچھی طرح جدائی ہو ‘ معروف منکر سے جدا ہو ‘ اور یہ تصور حیات اصلاح کی کسی مخصوص اسکیم سے علیحدہ ایک دائمی اصول و مبادی پر مبنی ہو۔ اور ظاہر ہے کہ یہ مقاصد صرف ایمان کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوسکتے ہیں ‘ یعنی اس کائنات میں صحیح تصور اور اس کائنات کے خالق کے ساتھ اس کا تعلق کے بارے میں صحیح تصور ‘ انسان اور اس کے مقصد وجود کے بارے میں صحیح تصور اور اس کائنات کے اندر انسان کے مقام اور اس کی حیثیت کے بارے میں صحیح تصور ۔ پھر ان صحیح تصورات کے نتیجے میں صحیح اخلاقی اصول وجود میں آتے ہیں ‘ جو خدا خوفی اور اس کی رحمت ورضا کی امیدپر مبنی ہوتے ہیں ‘ اور ان اصولوں کی وجہ سے لوگ ان اخلاقی اصولوں کے قیام پر بخوشی مائل ہوتے ہیں ‘ ان کے دلوں پر اللہ کی حکمرانی ہوتی ہے اور ان کے معاشرے پر اللہ کی شریعت کی حکمرانی ہوتی ہے اور یوں ان اصول وقواعد کی نگہبانی بھی ہوتی رہتی ہے۔ پھر ایمان اس لئے بھی ضروری ہے کہ داعیان خیر ‘ امر کنندگان معروف اور مانعان منکر اس راہ پرخار پر ‘ مشقتیں برداشت کرتے ہوئے ثابت قدمی سے ‘ اس قوت ایمانی کے بل بوتے پر گامزن ہوسکیں ۔ خصوصاً جبکہ ان کا مقابلہ شر کے طاغوتوں سوے ہو اور یہ طاغوت نوجوان بھی ہو اور تنومند بھی ہو ‘ جبکہ وہ خواہشات نفس کے طاغوت کا مقابلہ کررہے ہوں اور یہ خواہش اپنی شدت میں ہو اور خوب جوان ہو ‘ جبکہ وہ گری ہوئی ارواح کا مقابلہ کررہے ہوں جن کے عزائم کند ہوچکے ہوں جن کی شمع امید بجھ چکی ہو اور ایسے حالات میں ان کا زاد راہ صرف ایمانی قوت ہو ‘ ان کا سامان جنگ صرف ایمان ہو اور ان کا تکیہ صرف اللہ پر ہو ‘ ان کی حالت یہ ہو کہ ایمان کے زادراہ کے سواتمام توشے ختم ہوچکے ہوں اور ایمان کے سازوسامان کے سوا تمام سازوسامان ختم ہوچکے ہیں ۔ اور اللہ کے سوا تمام سہارے ایک ایک کرکے گرچکے ہوں ۔ اس سے پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ اے امت مسلمہ تم میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو سر انجام دے ۔ وہاں تو امت پر فریضہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر عائد کیا گیا تھا ۔ اب یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ تم خیر امت ہو ‘ تمہاری صفت و خاصیت یہ ہے کہ تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو ‘ اس میں امت کو یہ اشارہ ہے کہ اگر تمہارے اندر یہ صفت نہ پائی گئی ‘ یا کسی وقت نہ پائی جاتی ہو تو گویا تمہارا حقیقی وجود ہی نہ ہوگا۔ اس لئے کہ انسانی معاشرے میں یہ تمہاری پہچان ہے ۔ تم اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ لے اٹھو گے ‘ تو تم موجود تصور ہوگے اور اگر تم یہ فریضہ ترک کردوگے تو تم معدوم تصور ہوگے ‘ اور گویا صفت ایمان اور اسلام معدوم تصور ہوگی۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر امت مسلمہ کے اس فریضے کی طرف صراحت اور اشارات کے ساتھ وضاحت کی گئی ہے ‘ جس پر بحث ہم ان مقامات پر کریں گے ۔ مگر رسول اللہ ﷺ کی سنت میں بھی بار بار اس فریضہ منصبی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ چیدہ چیدہ احادیث یہاں پیش کروں : حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے سنا :” تم میں سے جو بھی منکر کو دیکھے تو اسے چاہئے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے زائل کردے ‘ اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان کے ساتھ ‘ اور اگر اس کی طاقت بھی نہ ہو تو اپنے دل کے ساتھ ۔ اور یہ ضعیف ایمان ہے۔ “ حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت ہے ‘ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب بنی اسرائیل گناہوں میں پڑگئے ‘ تو انہیں ان کے علماء نے روکا ‘ اور وہ نہ رکے ‘ تو ان کے علماء نے ان سے ہم نشینی کی ‘ ان کے ساتھ کھاتے پیتے ‘ تو اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے دلوں کو دوسروں کے دلوں کے ساتھ مارا ‘ اور حضرت داؤد (علیہ السلام) ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) ‘ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) کی زبان سے ان پر لعنت کی۔ “ اس کے بعد آپ ﷺ بیٹھ گئے (اور آپ ﷺ تکیہ لگائے تھے ) اور پھر فرمایا :” ہرگز نہیں ! اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ یہاں تک کہ تم انہیں واپس حق کی طرف اچھی طرح پلٹا کر نہ لے آؤ۔ “ لفظ تامروا تعطفوا (موڑو) اور تردوا (یعنی واپس لاؤ) ہے۔ (ابوداؤد ۔ ترمذی) حضرت حذیفہ ؓ کہتے ہیں ‘ فرمایا ‘ رسول اللہ ﷺ نے ” اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ۔ تمہیں معروف کا حکم دینا ہوگا اور تمہیں منکر سے روکنا ہوگا ورنہ قریب ہے کہ اللہ ‘ اپنی جانب سے تم پر کوئی عذاب بھیج دے اور پھر صورت حال یہ ہوجائے کہ تم اسے پکارو گے اور وہ تمہاری پکار کا کوئی جواب تمہیں نہ دے۔ “ (ترمذی) اور حضرت عرس بن عمیر کندی ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب زمین میں کوئی برائی ہورہی ہو ‘ تو جو شخص اس وقت اسے دیکھ رہا ہو ‘ اور اس پر نکیر کررہا ہو تو ایسا ہوگا ‘ جس طرح وہ اس سے غائب ہو ‘ اور جو شخص اس سے غائب ہو لیکن اس پر راضی ہو تو وہ ایسا ہوگا جیسا کہ وہ اسے دیکھ رہاہو۔ (ابوداؤد) حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے ‘ فرماتے ہیں کہ فرمایا ‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمزہ شہداء کے سردار ہیں اور وہ شخص شہداء کا سردار ہے جو ظالم بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوگیا اسے امر بالمعروف کیا اور اسے منکر سے روکا ٹوکا ‘ اور اس وجہ سے اس نے اس شخص کو قتل کردیا ۔ “ (روایت حاکم) یہ اور اس کے علاوہ دوسری بیشمار احادیث اسلامی سوسائٹی کی اس خصوصیت کو بیان کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ اسلامی معاشرے میں یہ فریضہ اور اس کی ادائیگی اشد ضروری ہے ۔ اس صفت کی وجہ سے معاشرے کی راہنمائی اور تربیت کا انتظام ہوتا رہتا ہے ‘ اور قرآنی ہدایت کے حکم ہونے کے علاوہ یہ ایک ایسا توشہ ہے جس کی افادیت سے اور اس کی قدر و قیمت سے ہم بالکل غافل ہیں ۔ اس کے بعد اب ہم پہلی آیت کے حصہ آخر کی طرف آتے ہیں ۔ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ……………” یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو اس کے حق میں بہتر ہوتا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایماندار بھی پائے جاتے ہیں مگر ان کے بیشتر افراد نافرمان ہیں ۔ “ ان فقروں میں اہل کتاب کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ ایمان لے آئیں ۔ ایمان ان کے لئے بہتر ہوگا ‘ اس کی وجہ سے ان کو اس تفرقہ بازی اور ہلاکت سے نجات ملے گی جس میں پڑے ہوئے ہیں ‘ وہ اعتقادی تصورات میں بھی فرقہ واریت میں مبتلا تھے اور ان کی شخصیت مجتمع نہ تھی ‘ اس لئے ان کے اعتقادی تصورات کے اندر اس قدر صلاحیت نہ تھی کہ وہ کسی اجتماعی نظام زندگی کی اساس بن سکیں ۔ اس وجہ سے کہ ان کے اجتماعی نظام ‘ ان کے اپنے عقائد کے علاوہ دوسرے تصورات پر قائم تھے ۔ چناچہ ان کا اجتماعی نظام ہمیشہ لنگڑا ‘ لولا اور ہوا کے اندر معلق نظام رہا۔ اس کی جڑیں کھبی بھی ان معاشرے کے اندر نہ پھیلیں ‘ جس طرح دنیا کے وہ نظام ہوا میں معلق رہتے ہیں جو کسی مکمل اعتقادی اور نظریاتی اساس پر قائم نہیں ہوتے ‘ جن کی تعمیر ایسے نظریہ حیات پر نہیں ہوتی جو اس کائنات کے معمہ کا مکمل حل پیش کرتا ہو ‘ جو وجود انسانی کے مقاصد نہ متعین کرتا ہو ‘ جو اس کائنات میں انسان کا مقام نہ متعین کرتا ہو ‘ اور ایمان لانا ان کے لئے آخرت میں بھی مفید ہے ۔ اس لئے کہ آخرت میں غیر اہل اسلام کا جو برا انجام ہونے والا ہے ‘ اس سے وہ بچ جائیں گے ۔ اس آیت میں صاف صاف اعتراف کیا جاتا ہے کہ ان اہل کتاب میں سے بعض لوگ صالح بھی ہیں ۔ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ……………” ان میں سے بعض اگرچہ مومن ہیں مگر اکثر فاسق ہیں۔ “ اہل کتاب میں سے بعض لوگ ایمان لائے تھے ‘ اور وہ بہت ہی اچھے مسلمان تھے ۔ مثلا عبداللہ بن سلام ‘ ثعلبہ بن شعبہ اور کعب بن مالک وغیرہ ۔ انہی لوگوں کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ۔ اگرچہ اس آیت میں اجمالی اشارہ ہے اور دوسری آیت میں تفصیلی اشارہ ہے ۔ لیکن ان کی اکثریت دین اسلام سے منکر رہی ۔ اس لئے انہوں نے اللہ کے اس عہد کو توڑا جو اللہ نے نبیوں سے لیا تھا کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے نبی پر ایمان لائے گا ‘ جو اس کے بعد مبعوث ہوگا ‘ اور اس کی نصرت کرے گا ۔ وہ دین اسلام کے نافرمان اس طرح قرار پائے کہ انہوں نے نبی آخرالزمان کے بھیجنے کے سلسلے میں اللہ کے ارادہ اور حکم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا ‘ محض اس لئے کہ یہ رسول بنی اسرائیل کے قبیلے سے نہ تھا ‘ اور انہوں نے اس رسول کی اطاعت کرتے ہوئے اللہ کی آخری شریعت کے مطابق اپنی زندگی کے فیصلے کرانے کے اعزاز سے بھی اپنے آپ کو محروم رکھا ‘ حالانکہ اللہ کا ارادہ اور فرمان یہ تھا کہ تمام انسانیت اس شریعت کے مطابق زندگی بسر کرے ۔ اہل ایمان میں سے بعض لوگ چونکہ بدستور مدینہ کے اہل یہود کے ساتھ روابط قائم کئے ہوئے تھے اور اس وقت تک مدینہ طیبہ میں یہودی ایک برتر قوت تھے ‘ وہ ایک عسکری قوت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی قوت بھی تھے اور اہل اسلام میں بعض لوگ ان کی اس حیثیت کو تسلیم بھی کرتے تھے ‘ اس لئے قرآن کریم نے یہ ضروری سمجھا کہ ان نافرمانوں کو اس حیثیت پر تنقید کرکے مسلمانوں کو ان کی مرعوبیت سے نکالاجائے اور ان کے کفر ‘ نافرمانی اور ان کے جرائم کی وجہ سے ان کی حیثیت میں جو کمی واقع ہوئی ہے ‘ اس کا اظہار کیا جائے ۔ نیز جس طرح وہ فرقوں میں بٹے ہوئے تھے اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت اور خواری مسلط کردی تھی یہاں اسے واضح طور پر ریکارڈ کردیا گیا ۔
Top