Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ
: تم ہو
خَيْرَ
: بہترین
اُمَّةٍ
: امت
اُخْرِجَتْ
: بھیجی گئی
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
تَاْمُرُوْنَ
: تم حکم کرتے ہو
بِالْمَعْرُوْفِ
: اچھے کاموں کا
وَتَنْهَوْنَ
: اور منع کرتے ہو
عَنِ
: سے
الْمُنْكَرِ
: برے کام
وَتُؤْمِنُوْنَ
: اور ایمان لاتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَلَوْ
: اور اگر
اٰمَنَ
: ایمان لے آتے
اَھْلُ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
لَكَانَ
: تو تھا
خَيْرًا
: بہتر
لَّھُمْ
: ان کے لیے
مِنْھُمُ
: ان سے
الْمُؤْمِنُوْنَ
: ایمان والے
وَ اَكْثَرُھُمُ
: اور ان کے اکثر
الْفٰسِقُوْنَ
: نافرمان
تم سب سے بہتر امت ہو جس کو ظاہر کیا گیا ہے لوگوں کے فائدے کے لیے ، تم نیک کاموں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے منع کرتے ہو ، اور تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے تو البتہ یہ ان کے لیے بہتر ہوتا ، ان میں سے بعض ایمان پر ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔
ربط آیات : اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی باتوں کو ماننے سے منع فرمایا اور اس کے نقصانات کا تزکرہ بھی کیا۔ پھر اللہ سے کماحقہ ڈرنے کا حکم دیا اور قرآن پاک کو مضبوطی سے پکڑنے کی وصیت کی۔ تفرقہ بازی کی ممانعت فرمائی ، اور حکم دیا کہ تمہارے درمیان ہر وقت ایک ایسا گروہ جرور ہونا چاہیئے جو لوگوں کو خیر کی طرف دعوت دیتے رہیں ، معروف کا حکم کرتے رہیں اور بری باتوں سے منع کرتے رہیں۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی حالت یاد دلا کر فرمایا کہ ان کی طرح نہ ہونا جنہوں نے تفرقہ ڈالا ، اور واضح احکامات آجانے کے بعد اختلاف کیا۔ یہ لوگ ناکام ہیں اور خدا کے عذاب کے مستحق بھی۔ گذشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کے رد میں کئی چیزیں بیان فرمائیں۔ ابتدا میں خانہ کعبہ کا ذکر آیا۔ اہل کتاب اپنے قبلہ کو افضل قرار دیتے تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ شریف کی فضیلت کا تذکرہ فرمایا " ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا وھدی للعلمین " لوگوں کی عبادت کے لیے اولین عبادت خانہ بیت اللہ شریف سب سے افضل ہے۔ اس کے بعد پیغمبر (علیہ السلام) کا ذکر آیا ، کہ تم نافرمانی کس طرح کروگے جبکہ تمہارے درمیان اللہ کا عظیم المرتبت رسول موجود ہے۔ پھر قرآن کریم کا تذکرہ ہوا ، کہ آسمانی کتابوں میں سب سے افضل کتاب ہے اور تمام لوگوں کو حکم دیا کہ اللہ کی اس کتاب کو مضبوطی سے تھام لیں۔ اب حضور ﷺ کی امت کا تذکرہ ہورہا ہے۔ کہ آپ کی امت بھی تمام امتوں سے افضل ہے۔ یہ چاروں چیزیں یعنی بیت اللہ شریف ، پیغمبر اعظم ، قرآن حکیم اور امت محمدیہ کا تذکرہ سورة بقرہ میں بھی ہوچکا ہے ، اب پھر اس کو دہرایا جارہا ہے۔ بہترین امت : ارشاد ہوتا ہے۔ اے امت رسول اللہ ﷺ کی امت کنتم خیر امتۃ تم بہترین امت ہو۔ کنتم ماضی بعید کا صیغہ ہے امام بیضاوی (رح) اور دیگر مفسرین فرماتے ہیں۔ کہ اس بات کا تذکرہ ماضی میں کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم سابق اور لوح محفوظ میں بھی یہ بات موجود ہے کہ اللہ کے ہوں تم سب سے بہتر امت ہو ، اس کا فیصلہ روز ازل سے ہوچکا ہے۔ صحیح حدیث میں آتا ہے نحن الاخرون السابقون یوم القیامہ ہم دنیا میں تو سب سے آخر میں آنے والے ہیں مگر جبت میں سب سے پہلے جانے والے ہوں گے۔ ایک دوسری حدیث میں یوں بھی آتا ہے کہ جب تک حضور اکرم (علیہ السلام) جنت میں داخل نہیں ہوں گے کوئی دوسرا نبی داخل نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک حضور کا تم المرسلین کی امت بہشت میں نہیں جائے گی۔ کوئی دوسری امت وہاں نہیں جائے گی۔ البتہ کتاب پہلی امتوں کو پہلی دی گئی اور ہم بعد میں آئے ہیں لیکن ہم سنقت کرنے والے اور آگے بڑھنے والے ہیں قیامت کے دن۔ سورة بقرہ میں بھی آتا ہے " وکذالک جعلنکم امۃ وسطا " اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے امت محمدیہ ! ہم نے تم کو امت وسط بنایا ہے۔ وسط کا معنی درمیان ہوتا ہے۔ جو افراط وتفریط سے پاک ہو۔ اسی کیے حضور اکرم (علیہ السلام) کا ارشاد ہے خیر الامور اوسطا بہترین کام وہ ہیں جو درمیانے ہوں۔ غرضیکہ حضور ﷺ کی امت امت وسط ہونے کے لحاظ سے بھی باقی امتوں سے افضل ہے۔ امر بالمعروف : فرمایا یہ ایسی امت ہے اخرجت للناس جس کو لوگوں کے فائدے کے لیے نکالا گیا ہے۔ ظاہر کیا گیا ہے۔ اور یہ تین طریقوں سے لوگوں کو نفع پہنچاتی ہے پہلی بات یہ ہے تامرون بالمعروف کہ تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو۔ یہ نہیں فرمایا کہ نیک ی کا حکم دو ۔ یہ گزشتہ دروس میں گزر چکا ہے۔ کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہیئے جو نیکی کا حکم کرے۔ اس مقام پر انداز بیان یہ ہے کہ تمہاری صفت ہی یہ ہے کہ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو۔ اب رہی یہ بات کہ نیکی کیا ہے۔ تو توحید سے لے کر ادنی درجے کی اچھ چیزیں سب نیکی میں آجاتی ہیں ۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ کہ لا الہ الا اللہ کہنا سب سے افضل نیکی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ حضور ﷺ سے سوال کیا گیا۔ حضور کونسا عمل افضل ہے ، فرمایا ایمان باللہ یعنی اللہ پر ایمان لانا ، توحید کو ماننا۔ اس کے بعد دوسرے اعمال نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ ہیں۔ گویا لوگون کو ایمان اور توحید کی دعوت دینا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس کے بعد چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں۔ حتی کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی مومن اپنے یمان کے تقاضے سے اہک روڑا یا پتھر بھی راستے سے ہٹا دیے تاکہ کسی راہ گزر کو ٹھوکر نہ لگے۔ تو وہ بھی نیکی شمار ہوگی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ کی روایت میں آتا ہے لا تحقرن من المعروف شیئا نیکی کی کسی چیز کو بھی حقیر نہ سمجھو۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں مل کر قیامت کے دن پہاڑ بن جائیں گی ۔ اسی طرح کسی برائی کو بھی حقیر اور کمتر نہیں سمجھنا چاہیئے ، کیونکہ یہ اکٹھی ہو کر بہت بڑا زخیرہ بن جائیں گی۔ غرض فرمایا کہ اے امت محمدیہ ! تمہاری صفت یہ ہے کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو۔ نہی عن المنکر : فرمایا تمہاری دوسری صفت یہ ہے وتنہون عن المنکر تم بری باتوں سے منع کرتے ہو۔ بری چیزوں میں کفر وشرک سے لے کر بدعات ، رسومات قبیحہ ، فسق وفجقر ، ہر قسم کی بد اخلاقی اور نامعقول باتیں شامل ہیں۔ ان سے روکنے کی تشریح پہلے ہوچکی ہے۔ کہ روکنا بھی ہاتھ سے ہوتا ہے ، کبھی زبان سے ، کبھی قلم سے اور کبھی تلوار سے۔ ابو داؤد شریف کی روایت میں موجود ہے جاھدوالکفار والمشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم یعنی کافروں اور مشرکوں کے ساتھ مال جان اور زبانوں کے ساتھ جہاد کرو۔ تبلیغ کا کام زبانی جہاد ہے۔ اگر توحید ، ایمان اور دیگر نیکی کی باتیں پھیلانے کے لیے کوئی مضمون لکھا جائے ، رسالہ جاری کیا جائے ، کوئی دستاویزتیار کی جائے یا کتاب لکھی جائے یہ قلم کے ذریعے جہاد ہے۔ اگر صاحب استطاعت ہے تو طاقت کے ذریعے بھی برائی کو روک سکتا ہے۔ اسکی تشریح پہلی آیت میں آچکی ہے۔ یہ بھی بیان ہوچکا ہے کہ امر بالمعروف فرض امور میں فرض ہوتا ہے ، واجب امور میں واجب ، سنت امور میں سنت اور مستحب امور میں مستحب کا درجہ رکھتا ہے۔ البتہ مفسرین فرماتے ہیں کہ اگر آدمی مایوس ہو تو زبانی جہاد کو ترک بھی کیا جاسکتا ہے۔ اگر کسی کو تجربہ کی بنیاد پر یقین ہے کہ اس کی بات کوئی نہیں سنے گا ، تو زبانی جہاد کو ترک کرنے کی بھی اجازت ہے اسکے باوجود بھی اگر وہ زبانی جہاد جاری رکھتا ہے تو بہت بڑے اجر کا مستحق ہوگا۔ البتہ جو صاحب اقتدار ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ برائی کو طاقت سے روکے۔ اگر ایسا نہیں کرتا تو مجرم ٹھہرے گا۔ اور قابل مؤاخذہ ہوگا۔ آج کر دور میں نئی نئی برائیوں نے جنم لیا ہے۔ نئی تہذیب نے گندے انڈے دیے ہیں۔ فوٹوگرافی ، مجسمہ سازی ، سینما ، وڈیو کیسٹ ، ٹیلیویژن ، وی سی آر وغیرہ موجودہ دور کی پیداوار ہیں۔ آب کھیلوں کی نئی بیماری آئی ہے۔ کرکٹ اور ہا کی وغیرہ کا بین الاقومی سطح پر خوب چرچا ہے۔ حکومت سرپرستی کر رہی ہے۔ انگریزوں اور یونانیوں کے جاری کردہ کھیل پوری دنیا میں چھا چکے ہیں ، کئی کئی دن مواتر کھیل جاری رہتا ہے لوگ کام کاج چھوڑ کر میدان میں پہنچ جاتے ہیں یا پھر ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے گرد بیٹھ جاتے ہیں۔ کامیابی پر مبارکباد دی جاتی ہے مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ صدر اور وزیر اعظم ٹہیم کو مبارکباد بھیجتے ہیں۔ کھیلوں پر بھاری رقم خرچ کی جاتی ہے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ اس سے کون سا بڑا مقصد حاصل ہوتا ہے۔ یہ محض لہو و لعب اور فضول خرچی ہے۔ یہی وقت اور روپیہ مظلوم کی مدد کرنے اور تکلیف زدہ کی تکلیف دور کرنے میں خرچ کرو۔ لوگوں کو قبیح رسومات اور کفر وشرک سے باہر نکالنے لیں خرچ کرو۔ یہاں تو الٹ ہی ہورہا ہے۔ قبریں پختہ بنائی جارہی ہیں۔ ان پر بےدریغ روپیہ صرف کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ نبی (علیہ السلام) کا ارشاد تو یہ ہے لا تجصصوا پختہ قبریں مت بناؤ، مگر سارا میٹریل سیمنٹ ، بجری ، اینٹ حرام کاموں میں صرف ہورہا ہے۔ شریعت میں قبروں کو پختہ کرنا ہرگز جائز نہیں۔ یہی دولت کسی نیکی کے کام میں لگتی تو امت کا فائدہ ہوتا۔ سینما ، تھیٹر ، ٹیلی ویژن کی جتنی بہتات ہوگی۔ اتنی ہی فحاشی پھیلے گی۔ قوم و ملت کو کیا فائدہ ہوگا۔ کبھی سینما دیکھ کر بھی نیکی پیدا ہوسکتی ہے۔ یہ سب شیطانی کام ہیں۔ جس کام کی بنیاد ہی لہو و لعب پر ہو ، لوگوں کو غافل بنانے اور خدا اور رسول کے احکام سے برگشتہ کرنے پر ہو ، اس سے کیا تربیت حاصل ہو سکتی ہے۔ وہاں سے چوری ، زنا ، ڈاکہ ، عریانی اور بےحیائی کی تعلیم ہی حاصل ہوگی۔ اگر تربیت حاصل کرنا ہے تو کسی نیک مجلس میں جاؤ، کسی خدا کے بندے کی صحبت اختیار کرو۔ نیکی وہاں سے ملے گی۔ جس چیز کو آج ترقی کا نام دیا جارہا ہے وہ تو سراسر منکرات میں شامل ہے جس کو روکنا صاحب اختیار کے لیے ضروری ہے۔ حضرت عمر ؓ نے تو فرمایا تھا اگر تم خیر الامت بننا چاہتے ہو تو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو جاری کرو ، ہر شخص کا دل نور ایمان سے منور ہو تب ترقی حاصل ہوگی۔ برائیوں کا ارتکاب کرکے خیر الامت کا لقب حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ایمان باللہ : الغرض ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا ، تم بہتر امت ہو جسکو لوگوں کی نفع رسانی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ سورة بقرہ میں آچکا ہے کہ اللہ نے تمہیں وسط امت بنایا ہے " لتکونوا شھداء علی الناس " تاکہ تم دو سے لوگوں پر گواہ ہوجاؤ۔ شاہ عبدالقادر (رح) اس کا ترجمہ کرتے ہیں " تاکہ تم دوسرے لوگوں کے معلم بن جاؤ " گویا رسول تمہارا معلم ہے ، اور تم دوسرے لوگوں کے معلم ہو۔ تاکہ تم دیگر اقوام اور مذاہب کے لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھاؤ۔ اگر تم خود ہی کفر ، شرک اور بدعات میں ڈوب گئے تو باقی دنیا کو ہدایت کے راستے پر کون لائے گا۔ اس لیے فرمایا کہ تمہارے بہتر امت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔ وتؤمنون باللہ اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ جو دین اور شریعت ہمیں نبی آخر الزمان (علیہ السلام) کے توسط سے ملا اس کی تمام جزئیات پر ہمارا ایمان ہے۔ اور اس کے تمام احکام کی بجا آوری ہم پر لازم ہے ۔ جو شخص اللہ پر ایمان لانے کا دعویدار ہے مگر قرآن و سنت کے احکام کو نہیں مانتا ، وہ کیسا مومن ہے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو بھی فرمائی ہے ولو امن اھل الکتب لکان خیرا لھم اگر اہل کتاب بھی اللہ پر ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ اللہ پر ایمان لانے کا یہی مطلب ہے کہ وہ نبی آخر الزمان اور قرآن حکیم اور پوری شریعت اور پوری ملت اسلامیہ پر ایمان لاتئے ۔ مگر یہ لوگ تو دانستہ کفر میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب بگاڑ لی ، عقیدہ خراب کرلیا اور طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہیں۔ اہل ایمان سے ان کو ضد ہے۔ انہوں نے تعصب کی بناء پر کفر کا راستہ اختیار کیا۔ ان کی بہتری اسی میں تھی کہ اللہ پر ایمان لے آتے۔ پھر فرمایا ، البتہ منھم المومنون ان میں سے بعض لوگ ایماندار بھی ہیں۔ حضور ﷺ کے زمانے میں مدینے کے دس بڑے یہودی علماء میں سے صرف عبداللہ بن سلام اور ان کے بعض ساتھی ان کی دولت سے مشرف ہوئے مگر واثرھم الفسقون ان کی اکثریت کافروں پر مشتمل رہی۔ یہود و نصاری کی اکثریت آج بھی فسق پر ہے۔ نزول قرآن کو چودہ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا۔ مگر ہی لوگ ابھی تک کفر پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ عیسائی مسیح (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ بناوٹی انجیل پر ان کا ایمان ہے۔ یہودی ان سے بھی زیادہ خباثت میں مبتلا ہیں۔ ان میں مکاری اور بےایمانی پائی جاتی ہے۔ انہیں آج تک کچھ سمجھ نہیں آئی کہ حضور خاتم النبیین ﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے۔ یہ لوگ قرآن پاک اور نبی آخرالزمان کی مخالفت میں ہ وقت سرگرداں رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ اسلام کے قریب نہ آئیں۔ ان کی اکثریت فساق کی ہے۔ ایسے زمانے میں خال خال ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو تعصب سے پاک ہوں۔ یہ لوگ تھوڑی سی توجہ کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں ایمان کی دولت عطا فرما دیں۔ اہل ایمان کو تسلی : اہل ایمان کی خصلت بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دی لن یضروکم الا اذی اہل کتاب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے ، تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے مگر زبانی چھیڑ چھاڑ جاری رکھیں گے۔ حضور ﷺ کے زمانے میں یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف نڑی سازشیں کی مگر اللہ نے ہر سازش کو ناکام بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے آئندہ کے لیے بھی فرما دیا " انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین اگر تم ایمان پر قائم رہے ، تو غالب تم ہی رہوگے۔ اہل کتاب تم پر غلبہ نہیں کرسکتے۔ ہاں اگر تم ایمان کو چھوڑ بیٹھو تو پھر اللہ تعالیٰ کا کوئی وعدہ نہیں ہے "۔ ان یضذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ "۔ تمہاری بداعمالیوں کی وجہ سے اگر خدا تمہیں رسوا کردے تو پھر تمہارا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔ فرمایا وان یقاتلوکم اگر اہل کتابت تم سے لڑائی کریں۔ یولوکم الادبار تو تمہاری طرف پیٹھ پھیر دیں گے ، تم سے لڑنے کی ہمت نہیں پائیں گے۔ سورة حشر میں بھی آتا ہے تم ان کی طرف سے پریشان نہ ہو ، یہ تمہارے ساتھ کھلم کھلا جنگ نہیں لڑ سکتے۔ اور اگر ایسا کوئی وقت آ بھی جائے تو یہ لوگ ذلیل و خوار ہو کر رہ جائینگے ثم لا ینصرون پھر ان کی ہرگز مدد نہیں کی جائے گی۔ یہ ناکا م اور نامراد ہوں گے۔
Top