Anwar-ul-Bayan - Az-Zukhruf : 44
وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ١ۚ وَ سَوْفَ تُسْئَلُوْنَ
وَاِنَّهٗ : اور بیشک وہ لَذِكْرٌ : البتہ ذکر ہے لَّكَ : تیرے لیے وَلِقَوْمِكَ : اور تیری قوم کے لیے وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَ : اور عنقریب تم پوچھے جاؤ گے
اور بلاشبہ یہ قرآن شرف ہے آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے اور عنقریب تم سے سوال کیا جائے گا
﴿وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ ﴾ (اور بلاشبہ یہ قرآن شرف ہے آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے ہے) اس آیت میں اللہ جل شانہٗ نے امتنان فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ کو خطاب فرمایا ہے کہ یہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم کے لیے باعث شرف ہے اللہ تعالیٰ شانہٗ مالک الملک ہے اور ملک الملوک ہے سب کا بادشاہ ہے اس کا کسی سے خطاب فرمانا یہ بہت بڑا شرف ہے محمد رسول اللہ ﷺ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور بار بار آپ کو مخاطب فرمایا اس میں آپ کے لیے بڑے شرف اور فخر کی بات ہے پھر آپ کے واسطہ سے آپ کی قوم کو خطاب فرمایا اور ان کی زبان میں اور ان کی لغت میں قرآن مجید نازل فرمایا ان کے لیے بھی یہ بات بڑے شرف کی ہے بہت سوں نے اس کی قدر دانی نہ کی اور کفر پر مرگئے اور بہت سوں نے قدر دانی کی اس پر ایمان لائے اس کی تلاوت کی اس کو پڑھا اور پڑھایا اور آگے بڑھایا یہ سب اہل عرب کے لیے بڑے شرف اور فخر کی چیز ہے، نزول قرآن سے لے کر آج تک پورے عالم میں قرآن مجید پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے جتنے بھی پڑھانے والے ہیں سب کی سند حضرات صحابہ تک پہنچی ہے جنہوں نے قرآن کو سیکھا اور سکھایا اور اس کی قرات اور روایات اور طرق ادا کو آگے بڑھایا۔ قرآن مجید کی وجہ سے عربی زبان کی پوری دنیا میں اہمیت ہوگئی اس کے قواعد لکھے گئے بلاغت پر کتابیں تصنیف کی گئیں قرآن کی وجہ سے خود عرب بھی بلند ہوگئے ورنہ نزول قرآن سے پہلے دنیا میں ان کی کوئی حیثیت نہ تھی یمن میں کسریٰ کا اقتدار تھا اور شام میں قیصر نصرانی کا اور مدینہ منورہ میں یہودی صاحب اقتدار بنے ہوئے تھے۔ ﴿لِقَوْمِكَ ﴾ سے بعض حضرات نے قریش مکہ کو مراد لیا کیونکہ قرآن مجید ان کی لغت میں نازل ہوا اور بعض حضرات نے مطلقاً عربی بولنے والوں کو مراد لیا ہے یہ تفسیر اس صورت میں ہے جبکہ ذکر سے تذکرہ مراد لیا جائے جس کا حاصل ترجمہ شرف اور فخر کیا گیا۔ بعض حضرات نے فرمایا ہے ﴿ لِقَوْمِكَ ﴾ سے عام مومنین مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ قرآن آپ کے لیے اور آپ کی قوم یعنی اہل ایمان کے لیے نصیحت ہے۔ ﴿وَ سَوْفَ تُسْـَٔلُوْنَ 0044﴾ (اور تم لوگوں سے سوال ہوگا) کہ اس قرآن کا کیا حق ادا کیا اور اس پر کیا عمل کیا اور اس کی کیا قدر کی۔ ﴿وَ سْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ ﴾ (اور جو رسول ہم نے آپ سے پہلے بھیجے ان سے دریافت کرلیجیے کیا ہم نے رحمٰن کے علاوہ معبود ٹھہرائے جن کی عبادت کی جائے) یعنی ایسا نہیں ہے اس میں بظاہر آپ کو خطاب ہے لیکن اصل مخاطب یہود اور نصاریٰ اور مشرکین ہیں اور انبیائے کرام سے دریافت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کتابوں کے بعض حصے جو موجود ہیں انہیں دیکھ کر تحقیق کرلی جائے تحقیق کریں گے تو یہ واضح ہوجائے کہ کسی بھی نبی نے شرک کی تعلیم نہیں دی ہے، اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ توریت اور انجیل جاننے والوں میں سے جو حضرات ایمان لے آئے تھے ان سے سوال کرنا مراد ہے۔ كما ذکر القرطبی : وقال ایضًا والخطاب للنبی ﷺ والمراد امتہ (جیسا کہ علامہ قرطبی ؓ نے فرمایا اور یہ بھی کہ خطاب حضور ﷺ سے ہے اور مراد امت محمدیہ ہے۔ )
Top